حافظ محمد محفوظ الحق (حاصل پور)
اگر چہ آج ہمارے معاشرے میں تعلیم کے فروغ کے لیے تمام تر وسائل و ذرائع گھر کی دہلیز پر دستیا ب ہیں اور ان سے استفادہ بھی کیا جارہا ہے۔ پرائمری سکول سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے تمام ادارے علم کی روشنی پھیلانے میں اپنی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔طلباء و طالبات جدید تعلیم سے ہمکنار ہو رہے ہیں مگر ہمارا تعلیمی نظام معلومات کی فراہمی کی حد تک تو کامیاب دکھائی دیتا ہے لیکن تربیت کا فقدان بہر حال دکھائی دیتا ہے۔ بدلتے حالات کے سبب نصاب میں شامل عملی سرگرمیاں محدود یا ختم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب معاشرے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ صفائی ستھرائی کا فقدان، عدم برداشت، اساتذہ اور بڑوں کے لیے احترام کے جذبات کا ختم ہو جانا، خود اعتمادی کے نام پر بے جھجک بولنا، بدکلامی، بد زبانی، غلط بیانی، غصہ، حسد اور بڑھتی ہوئی بے راہ روی جیسے عوامل طلباء کی شخصیت میں شامل ہو کر اخلاق اور کردار کی گراوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کا منفی اثر نہ صرف تعلیمی اداروں میں بلکہ ہمارے معاشرے پر بھی پڑ رہا ہے۔
لوگ منفی رویوں کے عادی ہو کر انہیں منفی رویہ سمجھتے ہی نہیں ہیں،مثال کے طور پر راہ چلتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی باتوں پر گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں اور باہم گتھم گتھا ہو جاتے ہیں ۔راہ چلتے خالی ریپرز اور کچرا سڑکوں اور گلیوں میں اچھال دینا معمول کا کام سمجھتے ہوئے معیوب نہیں سمجھتے۔ آج کے طلباء اس سے نابلد ہیں کہ اخلاقیات کیا ہو تی ہے، والدین کا احترام کسے کہتے ہیں، اساتذہ کا احترام کیا ہو تا ہے اور تربیت کتنی ضروری ہے۔ تعلیم کے بغیر اگر چہ گزارہ مشکل ہے لیکن تربیت کے بغیر معاشرے کا وہ حال ہوتا ہے جو آج ہمیں ہر طرف نظر آ رہا ہے، لہذا اگر ہمیں اپنے معاشرے کا قبلہ درست سمت میں استوار کرنا ہے تو تعلیم کے ساتھ تربیت کے امور کو نبھانا ہو گا۔ اساتذہ کو ایک قدم آگے بڑھ کر طلبہ میں مثبت رویوں کو پروان چڑھانا اور مثبت رجحانات کو فروغ دینا ہو گا ۔
ایک اچھے طالب علم میں اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ روایات کی پاسداری نہ ہو تو وہ محض تعلیم سے کوئی فیض نہیں پا سکتا ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے تعلیم یافتہ افراد کی کھیپ تو تیار کر رہے ہیں لیکن ان میں اخلاقی اقدارکے معیار کو پروان نہیں چڑھا رہے ۔تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ حب الوطنی پروان چڑھے، اچھے برے کی تمیز پیدا ہو،کسی کو حقیر یا کم تر نہ سمجھیں، اپنی نیکی، دیانت داری، ایمان داری، سچائی اور دین داری سے گھر اور معاشرے میں اچھا تشخص قائم کرے اور یہ سب اساتذہ کی محنت اور تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا ۔تعلیم اور تربیت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ پہلے ادب سیکھو پھر علم سیکھو ۔علم و ادب کی بدولت قومیں پروان چڑھتی اور دنیا کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں ۔
سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب نے طلبہ میں اخلاقی گراوٹ کے خاتمے کے لیے سٹوڈنٹ کونسل کی صورت میں ایک عملی قدم اٹھا یا ہے اور گزشتہ ماہ منایا جانے والا ہفتہ بزم ادب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی جسے سٹوڈنٹ کونسل کے عہدیداران نے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کامیاب کیا۔ اس اقدام سے طلباء وطالبات کا ٹیلنٹ بھی نکھرکر سامنے آیا جب کہ اس سے احساس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ کام کی تقسیم،سکول کے معاملات میں معاونت، طلبہ اور اساتذہ کرام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے باہم رابطہ کاری، ادبی سوسائٹیوں کی تشکیل، صفائی ستھرائی کے معاملات کی دیکھ بھال یہ سب ذمہ داریاں بھی تربیت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر تربیت کے میدان میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوائیں گے اور ملک و ملت اور معاشرے کے باوقار شہری بنیں گے۔