اقصیٰ شفیق (لیہ)
آج آپ مجھے گردوغبار میں پڑا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر میں ہمیشہ سےہی ایسے نہ تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے خود کو اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ ایک بینک کے ریٹائرنگ روم میں پڑے ہوئے دیکھا۔ مجھے اپنی جائے پیدائش اور تاریخ کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہ تھا۔ اس وقت تومیں اپنے حسن اور آب و تاب میں مگن تھی، میرا انگ انگ دھات کی چمک سے سجا ہوا تھا۔ جو کوئی بھی مجھے دیکھتا تو اس کی آنکھیں میری چمک سے چندھیا جاتیں۔ ہر کوئی مجھ جیسے حسین پانچ روپے کے سکے کا مالک بننے کا خواب دیکھتا۔
ایک روز بینک میں امیر گھرانے کی ایک خوبرو اورسروقامت خاتون داخل ہوئی، انہوں نے دس ہزار پانچ سو پچپن کا ایک چیک کیش کروایا تو اسی دن میری بخت خفتہ بھی بیدار ہوئی۔ دس ہزار پانچ سو پچاس روپے کے نوٹوں کے ساتھ میں ایک واحد سکہ تھا۔ اس خاتون نے مجھے اپنے خوش بو دار بیگ میں ڈال دیا۔ میں اس نئے ماحول میں بہت خوش تھا لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ جیسے ہی وہ خاتون اپنے گھر میں داخل ہوئی اس کی نظر اپنی نوکرانی کی بیٹی پر پڑ گئی۔ وہ گیند سے کھیل رہی تھی۔ اس خاتون نے پیار سے بچی کے سر پر تھپکی دی اور مجھے اپنے بیگ سے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ مجھے پاتے ہی اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی۔ اب اس نے گیند کو چھوڑا اور مجھ سے کھیلنے لگی۔کبھی وہ میلے کچیلے ہاتھوں سے مجھے اچھالتی تو کبھی مجھے اپنے منہ میں ڈالتی۔ ایک لمحے تو مجھے اپنی موت کا یقین ہو چلا تھا کہ جب میں بچی کے حلق کے بالکل دہانے پر تھا۔
دوسرے دن اس بچی نے مجھے ایک ریڑھی والے کو دے کر بدلے میں پتیسہ خرید لیا۔ میں کئی دن اس کے ڈبے میں بند رہا پھر اس ریڑھی والے نے مجھے ایک فقیر کو دے دیا۔ فقیر نے مجھے اپنے پیوند لگے لباس کی جیب میں ڈال دیا، اس فقیر کی جیب ایک طرف سے پھٹی ہوئی تھی، مجھے ڈر تھا کہ میں کہیں گر نہ جاؤں لیکن وہی ہوا جو میں نے سوچا تھا، آخرکار میں گر ہی گیا۔ اب میں ایک غبار بھری سڑک پر قسمت کو رو رہا ہوں اور پرانے دن یاد کر کے کبھی خوش ہوتا ہوں تو کبھی غم زدہ۔