بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

محمد مسعود ندیم (ڈیرہ غازی خان)

وقت کا پہیہ روزِ ازل سے گھوم رہا ہے۔ گردشِ ایام میں لمحے مستقبل سے حال اور حال سے ماضی میں بدل رہے ہیں۔ ان بدلتے لمحوں سے گزرتے لمحے یادوں کے سانچے میں ڈھل رہے ہیں۔ آنکھیں سالہا سال سے انہی منظروں سے روشناس ہیں ۔  یہ لمحے ، یہ پل  اوریہ ساعتیں  منظربن کر  ہماری  یادوں میں مہکیں گے ۔  ماضی کے جھروکے میں جھانکنےکا عمل بھی فطری ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ منظر ہوتے ہیں جو پہلے بھی آنکھوں میں سما چکے ہوتے ہیں۔  یہ احساسات اور جذبات ہر حساس انسان  کی سوچ کا حصہ ہوتے ہیں اور اگر تخلیق کار اس عمل سے نہ گزرے تو اُس کی تحریروں میں وہ رنگ نہیں جھلکتا جو قاری کے دل کی تاروں کو اپنی طرف کھینچ سکے ۔ جی ہاں آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں نوسٹیلجیاکی بات کر رہا ہوں جو میرے خیال میں ایک اوردل رکھنے والے انسان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ نرم دل اورشفیق انسان اور پھر فنونِ لطیفہ سے وابستہ اکثر لوگ نوسٹیلجیا میں گھِرے رہتے ہیں اور اپنی تخلیقی اور فکری صلاحیتوں کو دوام بخشتے ہیں۔

ایک وہ زمانہ بھی تھا جب ہم اپنے شہر کے سرکاری مدارس میں تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ اُس زمانے میں اُستاد کا ایک  مقام تھا جو آہستہ آہستہ کمرشل ازم  کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ سکول کے پی ای  ٹی  صاحب کے پاس ایک وِسل ہوتی تھی۔ جب وہ بجتی تھی  تومحسوس ہوتا تھا کہ پورا شہر ہی سنسان ہو گیا ہے۔ سکول اور ادارہ اعلیٰ نظم و ضبط کا خود ہی مثال ہوتا تھا۔ جب میں وہاڑی میں میٹرک کا طالب علم تھا توماڈل ہائی سکول وہاڑی کی ہاکی اور کبڈی کی ٹیمیں سرِ فہرست ہوا کرتی تھیں۔ سلیم شیروانی ،احسان اللہ اور کئی دوسرے اچھے کھلاڑی جن کا تعلق وہاڑی سے تھا  اُس وقت ہیڈ ماسٹر سردار عالم صاحب کبڈی کے کھلاڑیوں کو روزانہ دودھ بھی پلاتے اور مالش اور کبڈی کی تیاری کے لیے تیل بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ ہیڈماسٹر صاحب نے فزیکل ٹیچر کی ڈیوٹی بھی لگائی ہوئی ہوتی تھی کہ شام کے وقت بچوں کو باقاعدہ کھیلوں کی تربیت دیتے۔ پی ای ٹی شوز تقریباً ہر بڑے سکول کی جسمانی سرگرمیوں کا حصہ ہوتی تھیں۔ لیکن  یہ سب کچھ اس لیے ممکن رہا تھا کہ اس وقت کوئی اکیڈمی یا ٹیوشن سنٹر موجود نہیں تھا۔ بچے سکول سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر آرام کرتے ، پھر ذمیہ کام کرتے۔ شام کا وقت صرف اور صرف کھیل کے لیے وقف ہوتا ۔ ماضی کو جب حال کے ساتھ جوڑتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ قول زُبانِ زدِ عام ہے کہ جس قوم کے کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں ان کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ کھیل کے میدان کھیتوں کی طرح ہوتے ہیں جن میں زرخیز اور صحت مند ذہن پروان چڑھتے ہیں۔ کامیابیاں لہلہاتی ہیں اور کامرانیاں زندگی کا سرمایہ بن کر آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتی ہیں۔

ایک زمانہ پھر ایسا بھی آیا جب معاشرہ روبہ زوال ہونے لگا۔ کھیلوں کا فیصلہ صرف ٹاس  پر ہوتا۔ کاغذوں میں ٹیمیں اول، دوئم اور سوئم پوزیشنیں حاصل کرتیں، ٹرافیاں تقسیم ہوتی اور فرضی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔  اب تیسرا اور آخری مرحلہ ایسا بھی آیا کہ جس کو دیکھنے کے لیےمیری آنکھیں ترستی تھیں۔ میں خود ہی اپنی آنکھوں سے بچوں کو خوبصورت اور رنگ برنگی یونیفارم میں کھیلوں کے میدان میں دیکھا ۔ قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر کھیلوں کے فیصلے ہوئے۔ پاکستان کی  تاریخ  میں پہلی بار سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ  جنوبی پنجاب نے سکولمپکس گیمز کا انعقاد کیاگیا۔ اولمپکس کا لوگو  منتخب کیا گیا۔ ضلعی سطح پر ہر ضلع کو لوگو دیا گیا۔ مختلف پلے کارڈز ، سلوگن  اور جھنڈے کھیلوں کے وقار میں اضافے کا باعث بنے۔  اولمپکس مشعل کا سفر بھی ایک یادگار سفر تھا جو مختلف اضلاع  سے ہوتی ہوئی میزبان ضلع ڈیرہ  غازی  خان پہنچی۔ بطور میزبان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی ڈیرہ غازی خان نے بچوں کو بہتر سے بہتر سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی۔ کمروں میں نئے اور خوبصورت قالین بچھائے گئے۔ سکولز میں سرچ لائٹوں کا اہتمام کیا گیا۔ مچھروں سے بچاؤ کے سپرے کیے گئے، کوائل بھی رکھی گئی اور کھلاڑیوں کی رہائش گاہ پر کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ کھلاڑیوں کی نقل و حمل کے لیے ٹرانسپورٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ایجوکیشن سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب  کی طرف سے بھیجی گئی ٹیم بھی ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی جو گاہے گاہے ہماری  راہنمائی  کرتی رہی  اور سکولمپکس گیمز کی کامیابی میں سنگِ میل کی اہمیت اختیار کر گئی۔

میں دعا کرتا ہوں کہ کھیلوں کا انعقاد تواتر سے سکولوں میں ہوتا رہے، بچے پڑھتے رہیں  اور اگر پڑھنے میں کامیاب ہو گئے تو لکھنے کے خود بخود عادی ہو جائیں گے اور ان کی اس سرگرمی کی وجہ سے ان میں لطیف احساسات اور جذبات پروان چڑھیں گے اور وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن جائیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ سرگرمیاں اپنے شیڈول کے مطابق ہوتی رہیں اور ہم اپنے بچوں کی بہتر انداز میں نگہداشت کرتے رہیں۔

شیئر کریں
308
9