قراۃ العین صدیقی(لودھراں)
اکتیس دسمبر کی رات کیا آتی ہے، جوش و ولولے سے لبریز کتنے ہی دل سالِ نو کی مبارک باد دینا شروع کر دیتے ہیں۔کہیں معافی تلافی کا سلسلہ جاری و ساری نظر آتا ہے تو کہیں نئے سال کی آمد پر دعاؤں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ آنے والا سال گذشتہ سال سے زیادہ بہتر ہو اور زیادہ کامیابیاں اور خوشیاں لے کر آئے۔ مگر آنے والا سال کیسا ہو گا ،وہ ایک ایسا راز ہوتا ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ سوال جو ہمارے ذہن کو بے چین رکھتے ہیں ان میں اک سوال یہ بھی ہے کہ کہ کیا نیا سال شروع ہونے سے ہمارے رویے بھی بدلنا شروع ہو جائیں گے؟ کیا نئے سال میں دلوں میں چھپی کدورتیں ختم ہو سکیں گی؟ کیا یہ گزرتا سال اپنے ساتھ نفرتیں بھی لے جائے گا ؟ اور سالِ نو کی صبح زندگی میں پھیلے تمام اندھیروں کو ختم کر کے ایک روشن صبح کے طور پر طلوع ہو سکے گی؟ کیا اُس روشن صبح کا آفتاب جو چہروں کو منور کرے گا وہ باطن کو بھی منور کر سکے گا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ2021 کا آخری ڈھلتا سورج اپنے ساتھ ساتھ دکھ ،درد اور تکلیفیں ہی نہیں، بلکہ عداوتیں، نفرتیں اور رنجشیں بھی ساتھ لے کر ہمیشہ کے لیے غروب ہو سکے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آخری تاریک رات کی خاموشی میں چپ چاپ تمام رنجشیں اور عداوتیں کہیں دفن کی جا سکیں تاکہ آنے والا نیا سورج ایک نیا جنون، نئی خوشیاں اور نئی کامیابیاں لے کر آ سکے۔ اگر تو ڈھلتی شام کے ساتھ ہم رویے بھی بدل سکتے ہیں، ہم حق اور سچ کا ساتھ دینے والے بن سکتے ہیں، ہم منافقت کا لبادہ اتار سکتے ہیں تو پھر تو یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ نیا سال در حقیقت صرف دیوار پہ لگے کیلنڈر میں تبدیلی کا نام نہیں ہو گا بلکہ یہ ہماری زندگی میں ایک نئے اور روشن باب کا آغاز ہو گا۔وگرنہ صرف تاریخ بدلے گی، نہ ہم بدلیں گے اور نہ یہ دنیا۔