شوکت حیات خان ڈاہا (وہاڑی)
اکیسویں صدی انتہائی سبک رفتاری سے اپنی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ نت نئی ایجادات نے نہ صرف ہماری زندگی کو آسان بنا دیا ہے بلکہ ہمیں کئی مسائل اور چیلنجز سے بھی دوچار کر رہا ہے جو ہم سے پہلے والوں کو درپیش نہ تھے۔ ہمہ وقت تغیر وتبدل کا یہ دور ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ زمانے کی چال کو سمجھ کر چلیں۔ زمانے کی اسی خصوصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کے طالب علم اور استاد کو اس بات کا ادراک ہونا اشد ضروری ہو گیا ہے کہ اتنی ہمہ جہت زندگی کےلیے پیشہ ورانہ زندگی کا انتخاب کن اصولوں کے تحت کرنا چاہیئے۔ پیشے کا انتخاب کرنے کے لیے اس طالب علم میں متعلقہ پیشہ کےلیے مطلوب قابلیت کے ساتھ ساتھ کون کون سے رجحانات کا ہونا ناگزیر ہے اور وہ کون سے شعبے میں جا کر اپنا بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی کا نام کیرئیر کونسلنگ ہے۔
ہمارے یہاں مگر المیہ یہ ہے کہ اول والدین اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کے خواہاں ہوتے ہیں جو کہ اگرچہ غلط تو نہیں ہے لیکن طالب علم کے فطری رجحان کو یکسر دبانا بھی تو درست نہ ہے۔ دوئم عام دیہاتی طالب علم کوجو کہ ٹیلنٹ سے بھرپور ہوتا ہے میٹرک کجا ایف ایس سی تک یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے۔ اس بیچارے کو قدرت نے کاروبار کی صلاحیت دی ہوتی ہے جب کہ والدین اسے ڈاکٹر اور انجینئر بنانے پر مصر ہوتے ہیں۔ استاد کو اکثر اتفاق ہی نہیں ہوتا کہ اس کے فطری میلانات کا گہرائی سے تجزیہ کرے اور اسے بہتر رہنمائی دے سکے لہذا طالب علم کو مکمل حالات کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم وہ کچھ بن جاتا ہے جس کے لیے اسے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔ یوں معاشرہ ایک اچھے پروفیشنل سے محروم، والدین اپنی خواہش سے محروم اور متعلقہ فرد ساری زندگی کڑھ کڑھ کے زندگی کی سختیاں جھیلتا رہتا ہے۔
دنیا بھر میں پیشے کے انتخاب کو باقاعدہ تعلیمی نظام کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور سکول کی سطح سے ہی طالب علم کا ذہن بنا دیا جاتا ہے کہ اس نے کون سے پیشے کا انتخاب کرنا ہے، وہ کس کام کا ماہر بن سکتا ہے اور کس جگہ پر اس کی ضرورت ہے۔ لہذا اچھے رویوں کے حامل لوگ تیار ہوتے ہیں جو خدمت کے جذبے سے سرشار ملک و قوم کی خدمت کر تے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں معاملہ یکسر مختلف ہے۔ جب تک طالب علم اس قابل ہوکہ اپنے آپ کی پہچان کر سکے، اس کا وقت ہی گزرچکا ہوتا ہے اور زندگی کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہوا بہت آگے چل چکا ہوتا ہے، جس کے باعث ہم خدمت کے جذبے سے کوسوں دور بے زار طبیعت کے حامل لوگوں سے روز انہ ملتے ہیں جو اپنے پیشے کے علاوہ ہر کام میں ماہر نظر آتے ہیں اور ہم سسٹم کا رونا روتے رہتے ہیں۔
سکولوں میں ہفتہ میں کم ازکم ایک پیریڈ ایسا ہونا چاہیئے جس میں طلبہ کو ان کے رجحان کے مطابق پیشوں کے لیے مطلوبہ تعلیم اور دیگر لوازمات کی آگاہی دی جائے ، ان کو سوالات کرنے کا کہا جائے اور ان کو اپنے پسندیدہ پیشہ اور شعبہ جات سے متعلق معلومات بہم پہنچائی جائیں۔کم ازکم ہائی سکول کی سطح پر تو اس بات کا اہتمام لازمی ہونا چاہیئے۔ اس سلسلے میں سکول سے پڑھ کر جانے والے کامیاب لوگوں کو جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہوں یا دے چکے ہوں، سکولوں میں مدعو کیا جا سکتا ہے اور طلبہ کو ان سے تحریک دی جا سکتی ہے۔ والدین اور اساتذہ کی ملاقاتیں بھی اس سلسلے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر سکول سطح پر کیریئر کونسلنگ کا انتظام کر دیا جائے تو ہمارے بہت سے ہونہار طلباء وطالبات کا قیمتی وقت اور ان کی توانائیاں ملک وقوم کی بہتری کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں اور ان کو زمانے کی سختی سہنے سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔