اریحہ یٰسین (مظفر گڑھ)
میں پچاس روپے کا پرانا نوٹ ہوں جس کی آج کے دور میں کوئی اہمیت نہیں ہےکیوں کہ میں اپنی اصلی حالت کھو چکا ہوں۔ آپ میری موجودہ ہئیت کو دیکھ کر پریشان نہ ہوں کیوں کہ ایک دور ایسا بھی تھا جب تمام لوگ مجھے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا کرتے تھےاور میری تعریف کرتے نہ تھکتے تھے ۔ افسوس کہ اب وہ دور نہ رہااور گردش زمانہ نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔میں زندگی کے مختلف مراحل سے گذر کر موجودہ حالت میں پہنچا ہوں۔پہلے میرا تعلق ایک سرسبز و شاداب درخت سے تھا۔بھانت بھانت کے پرندے اس درخت پربسیرا کرتے اور اکثر اوقات کسان اور مسافر میرے سائے تلے بیٹھ کر سستاتے اورمحو گفتگو رہتے۔ایک دن زمین کے مالک نے اس درخت کو کسی لکڑ ہارے کے ہاتھوں بیچ دیا۔لکڑہارے نے بڑی بے رحمی سے درخت کو کاٹنا شروع کردیااور دیکھتے ہی دیکھتے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد درخت کو ایک کارخانے میں لے جا کر کاغذ کی شکل دینے کے لیے مختلف مراحل سے گزارا گیا۔میں بھی اسی درخت سے بنائے جانے والا کاغذ کا ایک حصہ ہوں۔ کاغذ بننے کے بعد مجھے چھپائی کے مراحل سے گزارا گیا۔مکمل تیاری کے بعد مجھے نوٹوں کے ایک بن دینے کیلئے مختلف مراحل سے گذارا گیاکاغذ بننے کے بعد مجھے چھپائی کے مراحل سے بھی گذارا گیامکمل تیاری کے بعد مجھے نوٹوں کڈل میں رکھ دیا گیا بعد ازاں مجھے ایک بنک میں بھیجا گیا۔ جس کے کیشیرنےمجھےدوسرے نوٹوں کے ساتھ الماری میں رکھ دیا ۔ چند دن بعد ایک ہار والا بنک آیااورمجھے دوسرے نوٹوں کے ساتھ ہار بنانے کے لیے لے گیا۔اب اس نے مجھے ایک نہایت خوب صورت ہار میں ٹانک دیااور میں اس ہار کا حصہ بننے کے بعدمزید جاذب نظر بن گیا۔اگرچہ ٹانکا جانا نہایت اذیت ناک مرحلہ تھامگر میں نے اسے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔جب میں نے اپنے آپ کو خوب صورت ہار کا حصہ بنتے ہوئے دیکھاتو میں اپنی اذیت کو مکمل طور پر بھول گیا ۔چند روز بعد ہار کو ایک دولہے کے لیے خریدا گیا۔ اس ہار کی وجہ سے دولہالوگوں کی توجہ کامرکزبنا رہا۔شادی ختم ہونے کے بعداس ہار کو کھونٹی پر لٹکا دیا گیا اور چند روز بعد مجھےاور میرے ساتھیوں کو بڑی بے رحمی سے الگ کردیا گیا۔ میں ایک ہاتھ سے دوسرے اور پھر تیسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہا۔ پہلے پہل مجھے سودا سلف کی خریداری کے لیے دکان دارکے حوالے کر دیا گیا، اس دکان دار نے مجھے لکڑی کی صندوقچی میں بند کردیا۔ میرے لیے سانس لینا محال تھا۔ اس کے بعد شام کو دکان دار نےمجھے اس قید سے نجات دلائی اور گھر آتے ہوئےمجھے دوسرےنوٹوں کے ساتھ اٹھا لیا۔ اگلے روز اس دکان دار کا بیٹاجب سکول جانے کے لیے تیار ہواتو اس نے مجھے اس شرارتی لڑکے کے حوالے کردیاجس نے مجھے اپنے تیل لگے ہاتھوں سے میلا کردیا۔اس نے مجھے ایک کتابوںوالی دکان پردے دیااور میرے عوض ایک پنسل اور کاپی خرید لی ۔ دکان دار نے مجھے اور دوسرے نوٹوں کو لیااور بنک میں لے جا کر کھاتے میں جمع کروا دیا۔یوں میں گھوم پھر کر دوبارہ بنک پہنچ گیا اور میں اب اس سوچ میں محو ہوں کہ اب میرا اگلا ٹھکانہ کہاں ہو گا۔