میمونہ حمید (راجن پور)

آرٹ ہماری سوچ ،تخیل اور مشاہدات کو بیان کرنے کاایک ذریعہ ہے۔ البرٹ ہیرڈ کا کہنا ہے کہ آرٹ کسی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک راستہ ہے اس راستے کے ذریعے انسانی ذہن اپنے تخیل کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ آرٹ انسانی ذہن کو وسعت دیتا ہے۔ انسانی آنکھ صرف دیکھتی ہے لیکن ایک آرٹ اپنے تخیل کی مدد سے اس دیکھی ہوئی چیز کو خوب صورتی سے دوسروں کو دکھاتا ہے۔ جن بچوں کو آرٹ میں دلچسبی ہوتی ہے۔ان کی سوچ، تصورات اور انداز بیان دوسرے بچوں  سے یکسر مختلف ہوتاہے۔بنیادی طور پر ہر انسان اپنے اندر ایک آرٹسٹ ہی ہے۔کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت بچپن سے ہی نکھری ہوئی ہوتی ہے اور کچھ لوگ لاپرواہی اور بے تو جہی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیت کااظہار نہیں کر سکتے۔ بچوں کی اس دلچسبی کو دیکھتے ہوئے والدین اور استاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس صلاحیت کو مزید نکھار کے لیے بچوں پر توجہ دیں۔چونکہ آرٹ کاانسانی ذہن سے بہت گہرا تعلق ہے۔اس لیے آرٹ میں دل چسپی رکھنے والے لوگ زندگی کے بہت سے شعبہ جات میں اپنالوہا منوا سکتے ہیں۔ ایسے طلباء جوآرٹ سے لگاؤ رکھتے ہیں  ان میں عملی کام کرنے کی صلاحیتیں نسبتا ً زیادہ ہوتی ہیں۔ایسے بچوں کومطالعے کرنے کاشوق ہوتا ہے اور یہ لفظوں کی ادائیگی بہترین انداز میں کر لیتے ہیں۔ آرٹ میں دل چسپی رکھنے والے بچے سن کر پرفارم کرنے کی بہت اچھی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسے طلباء جیو میٹری کی سمجھ بوجھ بھی زیا دہ رکھتے ہیں۔

 طلبہ کے لیے آرٹ کی تعلیم حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ بچوں کے تخیل میں صلاحیتوں کو اجاگر کیا جا سکے اور آرٹس کی مدد سے طلبہ کی باقی مضا مین میں دل چسپی اور کارکردگی کو بڑھانا آسان ہو سکے۔  آرٹس میں دل چسپی ناصرف طلبہ کی ذہنی نشوونما  اوراپنے تخیل کااظہار سامنےکرنے میں مدد دیتی ہے، بلکہ مستقل میں ان کے لیے معاشی اور معاشر تی طور پر بھی مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔لہذا آرٹ کوایک لازمی مضمون کی نسبت سے نصاب  کا حصہ ہونا چاہیےتاکہ پاکستان میں موجود ٹیلنٹ کو نکھار کے سامنے لایا جاسکے۔

شیئر کریں
264
2