نگہت شاہین (خانیوال)

مجھے یاد ہے کہ 80ء کی دہائی اور اس سے قبل کا دورثانوی و اعلیٰ ثانوی جماعتوں کی  درس و تدریس کے دوران تجربہ گاہوں کے استعمال کے لیے کسی حکم نامے کی ضرورت  نہیں ہوتی تھی۔ سائنس کا اُستاد اور طالبِ عِلم ذوق و  شوق سے اپنے مضامین کی تدریس  کے دوران تجربات کے لیے ہفتہ وار خود ہی ٹائم ٹیبل سیٹ کر لیتا۔ کچھ تجربات تدریس کے دورا ن کلاس روم میں ماڈل کی صورت میں پیش کر کے مضمون کی وضاحت کے لیے بہتر  سمجھے جاتے۔  حالاں کہ ایک ہی تجربہ گاہ میں تینوں مضامین فزکس، کیمسٹری اور بیا لوجی کے شو کیس کمرےکی چاروں دیواروں کو استعمال کرتے ہوئے ترتیب وار رکھے جاتے۔ ایک طرف تجربہ گاہ کے میز سیٹ کیے جاتے اور دوسری طرف طالبات کے لیے کرسیاں ترتیب دے دی جاتیں۔

  آج کل کے دور میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں  ہر مضمون کی لیب نمود و نمائش کے لیے تیار ہوتی ہے اور بشمول ہمارے اساتذہ اکرام کی ذہنی سطح چند بے معنی جواز تک اطمینان  بخشی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہےکہ سلیبس ہی اتنا  زیادہ ہے، اسی کو کَوَر کروا نا ضروری ہے اور تجربات امتحان دینے کے بعد ڈیٹ شیٹ کے مطابق درمیانی ایّام میں کروائے جائیں گے۔  طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ تجربہ گاہ میں اتنے بچوں کو تجربات کروانا بجٹ کے مطابق مشکل ہے۔

یہ  فقط ان کی سوچ ہے۔  اسلام میں ہے کہ اَعمال کا دار و مدار نِیتوں پر ہے۔  انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر اس کام کے لیے جو اس کی دلچسپی کے دائرے میں آتا ہے، کر گُزرتا ہے۔  یہ تمام مسائل جو ان کے  اپنے تخلیق کردہ ہیں ان سے چھٹکارا پانا  مشکل ضرور ہےلیکن  ناممکن نہیں ۔ کچھ عرصہ قبل  ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ مُلتان نے ایک مُراسلہ جاری کیا  تھا جس میں تجربہ گاہوں میں کیمرے لگانے،  سائنسی مضامین کے ٹائم ٹیبل تشکیل دینے اور معائنہ ٹیم کے دورہ جات کو ضروری گردانا گیا تھا، خصوصا جہاں امتحانی سینٹرز تشکیل دیے جاتے ہیں۔  سرکاری تعلیمی اداروں نے نے این ایس بی فندز سے بورڈ کی ہدایات کے مطابق  لیبز کی تزئین و آرائش کی ۔ موجودہ صورت حال سے پردہ کُشائی کی معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گی کہ مضامین وار لیبارٹریاں تشکیل دے دی گئی ہیں لیکن والدین اور طالب علم ابھی تک تجربات کے لیے تشنگی محسوس کر رہے ہیں۔  کیوں کہ  جدید نسل رٹہ سسٹم کی بجائے تجربات کی روشنی میں دی گئی تدریس کو اپنے ذہنی تخیلات کو جلا بخشنا مناسب سمجھتی ہے ۔

؎ہم بطور معزز شہری ہونے کے حوالے سے ملک و قوم کی ترقی کے لیے  تخلیقی صلاحیتیں ، ذہنی وسعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اداروں کے اندر تجربہ گاہوں کا استعمال انتہائی ضروری سمجھتے ہوئے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے استدعا کرتے ہیں کہ اس شعبہ کو بھی  جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کنٹرول کیا اور عمل کروایا جائےاور تجربہ گاہوں سے متعلق ورکشاپس منعقد کی جائیں جن میں اساتذہ کو متحرک کیا جائے۔   کیوں کہ ہمارا طالبِ عِلم تجربات کو امتحان کے بعد پریکٹیکل کی تیاری کے لیے کروائے جانے والے چند تجربات، جو استاد چند نشستوں میں کروا  کر تجرباتی علم کو کافی سمجھتا ہےاور پریکٹیکل کی کاپیاں بنی بنائی بازار سے خریدنے کو ترجیح دیتا ہے ۔  کیا سائنس دانوں کی تیاری   کے لیے یہی  عمل کافی ہے؟  اس سطحی سوچ کوبدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ وگرنہ ہم ٹیکنالوجی اور تجربات کے شعبے میں اپنی قوم کو کئی سال پیچھے لے جائیں گے۔ 

شیئر کریں
258
1