قرۃ العین صدیقی (لودھراں)

ارے جناب مبارک ہو۔ سرکاری نوکری لگ گئی جی آپ کی تو،واہ جناب۔ سرکاری استاد ہونے کے بھی کتنے فائدے ہیں۔ ارے جناب یوں کہیے کہ  حکومت کے داماد بن چکے ہیں۔  دیکھیے نہ کہاں نجی ادارے کی دس پندرہ ہزار کی نوکری اور کہاں سرکاری تنخواہ۔  کہاں نجی ادارے میں ہوم ورک چیک کرنے کا جھنجٹ ،کہاں سرکاری نوکری میں مزے ہی مزے۔ ارے یہاں کون سے والدین آ کر پوچھیں گے کہ ہوم ورک کیوں نہیں دیا بچے کویا کیوں غلط چیک کیا۔ ارے جناب میں تو کہتا ہوں کہ لگے ہاتھوں کسی ہائیر ایجوکیشن میں داخلہ بھی لے لو۔ روز نکل جایا کریں تفریح کے اوقات میں۔  کیا ہے بس سربراہ ادارہ سے بنا کے رکھیے اور پھر مزے ہی مزے۔ لیکن جماعت کے نتائج ان کا کیا ؟؟ ارے یہ بھی کوئی فکر کی بات ہے بھلا۔ ارے بس پاس ہی تو کرنا ہوتا ہے ادھر بچوں کو۔ اتنے تو تیاری کر ہی لیں گے بچےاور جو اگر نا ہو پائیں تو کہہ دینا کلاس ہی نکمی ملی۔ میں کیا کرتا۔ ارے زیادہ مسئلہ ہو تو سٹڈی کے لیےچھٹی لے لینا اور تو اور تم چاہو تو بعد کے اوقات میں کوئی کاروبار بھی کر سکتے ہو۔ ارے میں تو کہتا ہوں کہ اتنی بنا لو کہ حاضری لگائی اور نکل لیے بلکہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ کسی نجی تعلیمی ادارے میں بھی کوئی دو تین لیکچر لے لو ساتھ ہی ساتھ۔ دونوں طرف سے کمائی ہی کمائی۔  اور ہاں چاہو تو کوئی اکیڈمی بھی بنا ڈالو ساتھ ہی۔ ارے سکول میں نا سہی،  شام میں بچوں کو پڑھا لینا۔  ارے سرکاری نوکری ہے نجی ملازم تھوڑی ہو کہ کوئی کھڑے کھڑے نکال دے یا تنخواہ روک دے۔ ارے میں تو کہتا ہوں مزے ہو گئے ہیں  تیرے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں گورنمنٹ کا داماد۔

ویسے حضرات تو ٹھہرے حکومت کے داماد اور خواتین کیا ٹھہری؟ ارے جناب میں کہتی ہوں کہ خاتون سرکاری استانی لگ گئی تو کیا ہی کہنے جناب۔ ارے بچے پالنے کی جھنجھٹ تو ختم ہی سمجھو۔ ایک طالبہ کی بانہیں بچے کا مفت کا جھولا۔ دوسری فیڈر بنا دے گی ، کوئی کپڑے دھو کرڈال دے گی۔ ارے اور سبزی ترکاری بھی بچیاں ہی بنا دیا کریں گی نا۔  کیا ہے کہ ارے استانی بھی تو ماں ہی ہوتی ہے کچھ کام کریں  گی تو سیکھ بھی تو لیں گی نا۔ ویسے بھی کون سا ان لڑکیوں نے پڑھ لکھ کے افسر لگ جانا ہے پانچویں زیادہ سے زیادہ آٹھویں، پھر تو گھر ہی بیٹھنا ہے انہوں نے اور پاس فیل تو اپنے ہاتھ ہے، کر دیں گے پاس۔

یہ وہ سوچ تھی جس کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے برباد ہوئے۔ سرکاری سکول ویران اور نجی ادارے پھلتے پھولتے گئے۔ ایک وقت میں سرکاری سکول سے فارغ التحصیل طلبہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب ضمیر زندہ تھے اور استاد واقعی استاد کہلانے کا حقدار تھا ، پھر پیسے کی دوڑ نے سب کچھ بدل دیا۔ اور یہ ہی استاد سرکار کے داماد بن بیٹھے۔ مہنگائی، رشوت، سفارش،  جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اقربا پروری اور میرٹ کا خاتمہ بھی اس کی دیگر وجوہات میں شامل تھی۔ یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ سب لوگ ایک جیسے نہ تھے ، جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی۔ مگر کہیں تو خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑنے کے مصداق کام ہونے لگا اور کہیں جہاں با اصول لوگ رہے انہیں تنگ کیا جانے لگا۔ استاد نے اپنا مقام کھو دیا تو اسی استاد کو سیدھا کرنے کے لیے مانیٹرنگ سسٹم آیا، پیڈا ایکٹ بنایا گیا،  جزا اور سزا کے قوانین نافذ کیے گئے۔ آج کے سرکاری اداروں  میں بہترین انفراسٹرکچر، کشادہ عمارات، سائنس لیب، کمپیوٹر لیب، ای سی ای رومز، لائبریریاں موجود ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ماسوائے چند ایک کہ زیادہ تر نجی ادارے چھوٹے چھوٹے ڈربے نما کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہر دوسری گلی ہر محلے میں اس طرح کے سکول نظر آئیں گے جہاں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے ۔ آج کا سرکاری سٹاف اعلی تعلیم یافتہ ہے اور نئی آنے والی جوان نسل کام کرنے کی شوقین۔ محنتی اور نت نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتی ہے۔ اگر آج اپنے سرکاری سکولوں پر نظر دوڑائی جائے تو نئے آنے والے اساتذہ نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے جانفشانی سے پڑھاتے نظر آئیں گے۔ سرکاری افسر ہو یا سرکاری ٹیچر دن رات محنت کر کے اس مقام تک پہنچتے ہیں۔ ہزاروں امیدواروں میں سے گنتی کے چند لوگ سلیکٹ کیے جاتے ہیں۔ اتنے مراحل سے گزر کر ادھر تک پہنچتے ہیں۔ آن لائن سسٹم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انہیں ہر طرح سے ٹرینڈ کیا جاتا ہے۔  کئی قسم کی تربیتی ورکشاپس کے ذریعے انہیں متحرک کیا جاتا ہے۔ نئی نئی تکنیک سکھائی جاتی ہے۔ آج کے اساتذہ کام کرنے والے لوگ ہیں آج کے افسران اپنی محنت اور لگن سے نتائج اور دیگر شعبہ جات میں نجی سیکٹر کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ اپنے اوپر لگی اس فرسودہ کہاوت اورگھسے پٹے الزام سرکاری دامادکے خمار سے نکل چکے ہیں۔ اب کام، کام اور صرف کام۔

شیئر کریں
290
4