شازیہ اختر (بہاول نگر)
ماہرین نفسیات کے مُطابق چھوٹے بہن بھائیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا اُن کی دماغی نشوونما پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے مگر اس لڑائی جھگڑے کے ساتھ اُنہیں یہ بھی سیکھنا ضروری ہے کہ آپس کے معاملات اگر بگڑ جائیں تو اُنہیں ٹھیک کیسے کرنا چاہیے اور سمجھوتا کیسے کرنا چاہیے۔ درج ذیل سادہ تراکیب سے والدین بچوں کی آپس کی لڑائی کو ختم کروا سکتے ہیں اور اُن میں سمجھوتا کرنے اور معاملات کو از خود درست کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔
بچوں کو کہانیوں کے نتائج بتائیں: کہانیوں کے علاوہ بچوں کو نبی ﷺ کی فتح مکہ کی کہانی بھی سُنائیں اور بتائیں کہ کیسے ہمارے نبی ﷺ نے مکہ فتح کرنے کے بعد سب کو معاف کر دیا تھا اور کیوں؟ وہ کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے۔
جرمانہ باکس اور جاب باکس: بچوں کے لیے ایک ڈبہ مختص کریں اور اُنہیں بتائیں کہ اگر اُنہوں نے آپس میں لڑائی کی تو ایک دن کا جیب خرچ جرمانے کے طور پر ادا کرنا پڑے گا اور اگر بچوں کو جیب خرچ نہیں ملتا تو ایک ڈبے میں کاغذوں پر مختلف کام لکھ کر ڈبہ بھر دیں اور اگر وہ آپس میں جھگڑا کریں تو اُنہیں ڈبے سے ایک پرچی نکالنے کا کہیں اور گھر کا جو بھی کام اُس پرچی پر لکھا ہو اُن سے کروائیں، اس طریقے سے اُن کی لڑنے کی عادت ڈانٹ ڈپٹ کے بغیر ختم ہو سکتی ہے۔
چوں سے خط لکھوائیں: اگر بچے آپس میں جھگڑ رہے ہیں اور آپ کے پاس ایک دُوسرے کی شکایت لے کر آرہے ہیں تو دونوں کو ایک ایک خالی پیپر دے کر اپنے اپنے جذبات اور احساسات لکھنے کا کہیں اور اگر وہ چھوٹے ہیں تو ان کو کہیں کہ وہ اپنے جذبات کو آپ کے سامنے بلند آواز میں بیان کریں۔ اس عمل سے بچوں کو محسوسات کا خود بھی پتا چلے گا اور وہ بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے کے عمل سے بچیں گے اور اگر لکھنا پسند نہیں کرتے تو وہ کوشش کریں گےکہ لڑائی سے بچیں تاکہ اُنہیں لکھنے کی کوفت گوارہ نہ کرنی پڑے۔
بچوں کو علیحدہ علیحدہ وقت دیں: بچوںکے ساتھ علیحدہ علیحدہ وقت گُزارنا اور اُن کی دلچسپیوں میں شامل ہونا، دُوسرے بچوں میں تھوڑا حسد پیدا کر سکتا ہے ، اگر سب کو برابر برابر وقت مل رہا ہے تو اس کے بہت سے فائدے ہیں۔ اس سے بچوں کو پتا چلتا ہے کہ اُن کی بڑی اہمیت ہے اور اُن کے والدین اُن پر توجہ دیتے ہیں اور اُن سے باخبر رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ لڑائی جھگڑے سے بچنے کی کوشش کریں گے تاکہ اُن کو علیحدگی میں جواب دہ نہ ہونا پڑے۔اس عمل سے بچوں کے درمیان آپس میں ایک اچھا فاصلہ بھی قائم ہوگا جو اُن کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے لیکن والدین ہمیشہ کوشش کریں کہ مساوات قائم رہے۔
کسی ایک بچے کا بلاوجہ دفاع نہ کریں: جب آپ کسی ایک بچے کا دفاع کرتے ہیں اور دوسرے کو ڈانٹ پلاتے ہیں تو اُس ڈانٹ کھانے والے کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اُسے کم پسند کیا جاتا ہے۔ لہٰذا بچوں کو اُن کے آپس کے مسئلے خُود سلجھانے دیں اور اُنہیں بتائیں کہ ایک دُوسرے کی ضروریات کو کیسے پُورا کرتے ہیں؟