قرۃ العین صدیقی (لودھراں)

تعلیم دینا پیشہ پیغمبری کہلاتا ہے اور استاد قوم کے معمار کہلاتے ہیں۔ یعنی استاد کا اختیار ہے کہ اپنے طلبہ کو غوروفکر کرنے والا، تجزیہ کرنے والا اور مثبت سوچ رکھنے والا بنائے یا پھر بس زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا دے اور رٹو طوطا بنا ڈالے۔ ہم اپنے تعلیمی نظام پر نظر دوڑائیں تو ہر استاد کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ امتحانات میں نمبر کیسے زیادہ لائے جا سکتے ہیں۔ ہر وہ بچہ اچھا،  قابل،  ذہین اور استاد کی آنکھ کا تارا شمار ہوتا ہے ، جو امتحان میں زیادہ نمبر لائے۔  والدین کو دیکھا جائے تو وہ بھی اکثر اپنے بچوں میں نمبروں کی وجہ سے فرق کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ علی کے نمبر زیادہ آ گئے تو وہ احمد سے زیادہ ذہین اور قابل ہوا۔ قابلیت کا انحصار زیادہ سے زیادہ نمبر لانا ٹھہرا۔  اس سے بچوں میں ہٹ دھرمی، غصہ، حسد اور اکتاہٹ بھی پیدا ہونے لگی ہے۔   اب تو کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے بھی میرٹ اٹھانوے اور ننانوے فیصد تک پہنچنے لگا ہے۔ یعنی اکثر طلبا نوے فیصد سے زائد نمبر لے کر بھی اپنے پسندیدہ کالج میں داخلہ لینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔   ان تمام مسائل کی وجہ ہمارا امتحانی نظام اور  ناقص امتحانی پالیسی ہے۔   کیوں کہ ہمارے امتحانی نظام کا تمام تر دارومدار سطحی علم کا جائزہ لینا ہے ۔ بجائے فہم و ادراک کا جائزہ لینے کے۔اس سسٹم کے زیرِ اثر اساتذہ بھی سکول میں بچوں کو اہم سوالات کرواتے اور ماڈل پیپرز سے رٹا لگواتے نظر آتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کیے جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رٹا سسٹم کو ختم کیا جائے یہ تب ہی ممکن ہے جب امتحانی پالیسی میں اصلاحات کی جائیں۔ سطحی علم کو ٹیسٹ کرنے کی بجائے غوروفکر، تحقیق اور تجزیہ کرنے پر زور دیا جائے۔ اساتذہ کو چاہئے کہ سبق کی درست منصوبہ بندی کر کے سمعی و بصری معاونات کی مدد سے سبق کا متن واضح کرے۔ زیادہ سے زیادہ سوالات کر کے اور بحث و مباحثہ کے ذریعے سبق کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے۔  نمبروں کی دوڑ سے نکل کر طلبہ میں عملی طور پر مل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ تالیاں بجا کر شاباشی دے کر طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ذاتی پسند و ناپسند سے اجتناب کیا جائے۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔  اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس مستقبل کو درخشاں بنائیں۔

شیئر کریں
252
1