قرۃ العین صدیقی (لودھراں)
ہمارے معاشرے میں عورت پر مرد کو فوقیت ازل سے حاصل ہے اور شاید ابد تک رہے گی۔ تعلیمی ترقی بھی شاید اس معاشرتی سوچ کو بدلنے سے اب تک قاصر نظر آتی ہے۔ اب بھی بیٹے کو بیٹی پر فوقیت حاصل ہے۔ جب بھی کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اسے دعا دی جاتی ہے کہ اللہ اولاد نرینہ سے نوازے اور بے چاری عورت پہلے دن سے اس دعا میں لگ جاتی ہے ۔۔یا اللہ بیٹا دینا ۔کبھی بھی کوئی بیٹی نہیں مانگتا ۔ جب اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی جائے تو جواب ملتا ہے کہ بیٹا ہو گا تو ماں باپ کا سہارا بنے گا۔ بیٹا ہو گا تو نسل آگے چلے گی۔ بیٹا ہو گا تو جائیداد کا وارث ہو گا۔ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک عورت ہی یہ باتیں بناتی ہے۔ کبھی ماں کے روپ میں۔کبھی ساس کے روپ میں۔ کبھی بڑی بہن کے روپ میں ۔اپنے بیٹے کی یہ تربیت کرنے کی بجائے کہ بیٹا اور بیٹی برابر ہیں یہ بات ذہن میں ڈال دیتی ہے کہ بیٹی ہوئی تو جائیداد میں سے حصہ دینا پڑے گا ۔ اس کو جہیز دینا پڑے گا ۔ اس کی رکھوالی کرنی پڑے گی ۔ بیٹا ہونا خوش نصیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بیٹی بد قسمتی کی ۔کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کی گئی ہو ۔ بیٹی کی پیدائش پر تو ہائے ہائے شروع ہو جاتی ہے ۔ بد قسمتی کا ڈھنڈوراپیٹا جاتا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فرسودہ سوچ کو ختم کیا جائے ۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم بطور ماں اپنے بیٹوں کی مثبت تربیت کریں ۔ انہیں بتائیں کہ آپ کی بیٹی آپ کی بہن آپ پر بوجھ نہیں ہے ۔ اسے بھی بات کرنے کا ،بولنے کا ، علم حاصل کرنے کا، زندہ رہنے کا، آزادفضا میں سانس لینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک بیٹے کو ۔مگر اس کے برعکس عورت آج بھی ایک عورت ہی کی وجہ سے پستی آئی ہے ۔ ایک عورت ہی ہے جو بہن کو کہتی ہے کہ تم بہن ہو چپ رہو ۔ بھائی کی غلط بات پر بولنا بھی تمہیں جائز نہیں ۔ تب سے ایک بات جو ان معصوم ذہنوں میں بیٹھ جاتی ہے وہ ہے بے حسی کا خول کہ میں مرد ہوں تو مجھے اختیار ہے ڈانٹنے کا ۔میں عورت ہوں تو مجھے بس سہنا ہے اور چپ ہی رہنا ہے ۔ ایک عورت ہی اپنی معصوم بچی کی تربیت کرتی ہے تو روک ٹوک کرتے وقت بار بار اسے یاددلاتی ہے کہ تم لڑکی ذات ہو ، تم نے اونچا نہیں بولنا ۔ تم نے ایسے چلنا ہے۔ ایسے اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ آگے سے نہیں بولنا ۔ خاموشی سے بات سننی ہے ۔ سر ہر وقت جھکا کے رکھنا ہے ۔ بھائیوں پر قربان ہو جانا ہے ۔ معصوم ذہنوں میں بیٹھائی گئی یہ تمام باتیں وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر پختہ ہو جاتی ہیں کہ ایک بیٹے کو باپ بننے پر بیٹی کا وجود بوجھ لگنے لگتا ہے ۔ ایک بھائی کو بہن بری لگنے لگتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور ماں اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت ان میں مقابلہ بازی کرنے کی بجائے ان میں محبت اور یگانگت کا جذبہ پیدا کریں تاکہ آنے والی نسل بیٹی کو زحمت سمجھنے کی بجائے رحمت سمجھے ۔ اپنی بات کا اختتام اپنے چند اشعار پر کرنا چاہوں گی ۔
بنتِ حوا ڈر سی جاتی ہے
کہیں رسم و رواجوں سے، کہیں اونچی آوازوں سے
کہیں الجھے سوالوں سے، کہیں خوابوں خیالوں سے
بنت حوا ڈر سی جاتی ہے
کہیں بے حس زمانے سے، کہیں ہنسنے ہنسانے سے
کہیں ملنے ملانے سے، کہیں گردن اٹھانے سے
بنت حوا ڈر سی جاتی ہے
کہیں پر گاڑھی نہ جائے، کہیں پر ماری نہ جائے
کہیں چاقو کے واروں سے، کہیں پسٹل کلہاڑوں سے
کہیں زندہ جلانے سے، زمین میں گاڑےجانے سے
بنتِ حوا ڈر سی جاتی ہے