آصفہ سعید (مظفر گڑھ)

آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ارے نہیں یار یہ چاکلیٹی ہیرو بھی ہے۔ آم کا  نام آئے اور منہ میں پانی نہ آئے، یہ ممکن ہی  نہیں ہے۔اور میں  ٹھہری آم کی  دیوانی۔عمر  رواں کی 26 بہاریں گزر گئیں مگر آم کی محبت میں آج بھی درختوں پر نظر دوڑانا نہیں چھوٹا۔ آج بھی ندیوں، نہروں کی طرف دیکھتی ہوں کہ شاید کوئی آم بہتا ہوا مل جائے۔ موسم بھی آم کا ہے، درختوں پر املیاں لگی ہوئی ہیں۔ سکول آتے ہوئے آموں کے باغ  پہ ہماری نظر یں گڑ جاتی ہیں۔گاڑی سکول کی جانب رواں دواں، مس شمائلہ، شائستہ، فرح، یار دیکھو تو سہی وہ آم گرے ہوئے ہیں۔ چلو اٹھائیں۔ مس ساجدہ بولتی ہیں کہ فکر نہ کرو بہت آم ہیں۔ اب کیا کہیں۔ آم تو بہت ہیں مگر یہ دل تو بچہ ہے، من ہی من میں ہم اچھلتے رہتے ہیں، تصور میں آم اور زیادہ آم اٹھانے کے لیے دوڑ لگا رہے ہیں، ہم ٹیچرز (بچے) آپس میں آم کے لیے چھینا جھپٹی کر رہے ہیں۔ اوہ۔۔۔۔  یہ کیا، سکول آ گیا۔ ہائے ایسے ہمارے نصیب کہاں۔ ظلم صرف اتنا ہی نہیں، سکول میں دیکھو تو ذرا، بچے بے دھڑک آم کھا رہے ہوتے ہیں۔ جن بچوں کے پاس املیاں نہیں ہوتیں وہ شکایت لے کے آجاتے ہیں۔ مس! دیکھیں فلاں لڑکی املی کھارہی ہے۔ اب ہم کیاکہہ سکتے ہیں مگر اس وقت دل کرتا ہے کہ استاد کا لبادہ اتار کر ہم بھی بچے بن جائیں اور بچوں سے املیاں چھین کر کھا جائیں۔ کچھ بچوں کی نظر کرم ہو ہی جاتی ہے کہ ٹیچر جی! آم کھائیں گی اور میں بے چاری بھرم کے مارے ہاں بھی نہیں کہہ سکتی، کیونکہ اس موقع پر اپنے محترم استاد عطا محمد مرحوم جو گورنمنٹ ہائی سکول محمود کوٹ میں پر نسپل تھے، کا سنایا ایک لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔ جو کچھ یوں تھا کہ ایک ماسٹر صاحب  گھر سے ناشتہ کیے بغیر سکول آگئے۔ کلاس میں بچہ روٹی کا ٹفن کھولے بیٹھا تھا ۔ بچے نے کہا استاد جی! روٹی کھاسو؟ ماسٹر صاحب کی تو لاٹری نکل پڑی، آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بچے کی روٹی کھالی۔ کچھ دیر بعد بچے کو 10 روپے کی خرچی دے کر پوچھا: گھر اماں کوں کیا اکھیسیں؟ بچے نے معصومیت سے جواب دیا: میں اماں کو اکھیساں جو روٹی کتا کھا گئے۔ آہ! بے چارے  استاد جی۔ اپنا بھی  یہی حال ہے مگر اپنا بھی کوئی معیار ہے صاحب۔ پس مت پوچھیے آج کل بچے بادشاہ ہیں جی ۔

شیئر کریں
463
1