طاہرہ مریم روشی (لودھراں)

ہمیشہ مل کے رہنے کے نتیجے نیک ہوتے ہیں

وہیں کچھ لطف ہوتا ہے جہاں دل ایک ہوتے ہیں

اتفاق اور اتحاد ہم معنی الفاظ ہیں۔ اتحاد کا مطلب ہے متحد رہنا۔ دنیا کا تمام نظام اتفاق و اتحاد پر قائم ہے۔ مثل مشہور ہے کہ اتفاق میں طاقت ہے اور ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔اینٹیں باہم ملتی ہیں تو دیوار بنتی ہے  ۔ہمارے ہاتھ میں موجود کتاب، اوراق کی شیرازہ بندی ہے۔ ہمارے تن پر موجود  لباس باریک دھاگوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ چیزوں کے باہم اتفاق کی مثالیں ہیں۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اپنے اندر اتحاد کے ایسے پہلو رکھتی ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے قومیں کامیاب و سرفراز ہوتی ہیں۔ نماز باجماعت اتفاق کا بہترین مظاہرہ ہے۔ حج اتفاق کا ایک عالمگیر مظاہرہ ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اسی طرح رسولِ کریم ﷺ کا ارشادگرامی  ہے کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی سی ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم تکلیف  محسوس کرتا ہے۔ بقول شاعر

سبق دیتی ہے ہر شے زندگی کے کارخانے  میں

ملاپ آپس کا ہے سب سے بڑی طاقت زمانے میں

فرد کا قوم کے ساتھ وہی تعلق ہے جو قطرے کا دریا کے ساتھ ہوتا ہے، جو ٹہنی کا درخت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر ٹہنی درخت سے اور قطرہ دریا سے الگ ہو جائے تو مٹ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر افراد اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ دیں تو ان کی حیثیت ختم  ہو جاتی ہے اور ان کی شناخت مٹ جاتی ہے۔ بقول اقبال

فرد  قائم  ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

تاریخ شاہد ہے کہ جب جب مسلمان متحد رہے، کوئی بیرونی طاقت انہیں نقصان نہیں پہنچا سکی۔ پاکستان کا قیام جو بیسویں صدی کا  سب سے بڑا معجزہ ہے اتفاق اور اتحادہی کی بدولت معرض وجود میں آیا۔ الغرض یہ کہ دنیا اتفاق کی برکات کے سبب ہی امن کا نمونہ بن سکتی ہے۔

شیئر کریں
570
8