رمشا ذوالفقار (رحیم یار خان)
کسی جنگل میں ایک کوّا رہتا تھا۔ اسے گھومنے پھرنے اور نئی جگہیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن کوّا درخت کی شاخ پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آج جنگل کے کس حصے کی سیر کی جائے، لیکن جنگل کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو اس نے نہ دیکھا ہو۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا کہ کیوں نہ آج جنگل سے نکل کر آبادی کی سیر کی جائے۔ یہ خیال آتے ہی کوّے نے لمبی اُڑان بھری اور بہت دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا پہنچا۔ کافی دیر اڑنے کی وجہ سے کوّے کو سخت بھوک لگی تھی۔ اس نے کھانے کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ کوّے کو سخت مایوسی ہوئی اور اسے اپنا جنگل یاد آنے لگا جہاں کھانے پینے کی کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی۔ کوّا بھوک سے بےحال ہو چکا تھا اب اس کے جسم میں اِتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ اُڑ کر واپس جنگل میں جا سکے۔ تھک ہار کر وہ ایک ٹنڈ منڈدرخت کے تنے پر جا بیٹھا۔ نیچے زمین پر بہت سی مرغیاں دانہ چُگ رہی تھیں۔ اچانک کوّے نے دیکھا کہ ایک عقاب اڑتا ہوا آیا اور ایک چوزے کو پنجوں میں دبوچ کر اڑ گیا۔ باقی مرغیوں نے شور مچایا شور سن کر مرغیوں کا مالک بھاگا آیا، لیکن تب تک عقاب چوزے کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر دور جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر مرغیوں کے مالک نے عقاب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور ایک جگہ چُھپ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ مالک نے سوچا کہ جیسے ہی عقاب دوبارہ شکار کرنے آئے گا تو میں اسے مار دوں گا۔ اِدھر کوّے نے عقاب کو چوزے کا شکار کرتے دیکھا تو دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آج میں بھی کسی مرغی کا شکار کروں گا۔ یہ فیصلہ کر کے کوّا اڑتا ہوا آگے بڑھا اور مرغیوں کے پاس جا پہنچا۔ اس نے عقاب کی طرح جھپٹ کر ایک موٹی مرغی کو اُٹھانا چاہا لیکن مرغی کا وزن کوّے سے بھی زیادہ تھا اس لیے کوّا مرغی کو اُٹھانے کی کوشش میں خود بھی نیچے جا گرا۔ مرغیوں کے مالک نے جب کوّے کو مرغی پکڑتے دیکھا تو اس نے جلدی سے غلیل میں ایک نوکیلا پتھر رکھ کر کوّے کی طرف اُچھال دیا۔ پتھر کوّے کے سر پہ لگا اور وہ چوٹ کھانے کے بعد زمین پر گرتے ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔