وحید احمد (خانیوال)

ڈینگی بخار ایک وبائی مرض ہے جو متاثرہ مچھروں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ مرض بنیادی طور پر ایڈیز مچھر کے ذریعے پھیلتاہے۔ یہ مچھر دنیا بھر میں گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار پاکستان میں عمومی طور پر اور صوبہ پنجاب میں خاص طور پر انتہائی تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے۔ دنیا بھر کے گرم علاقوں میں ڈینگی انسانوں کو متاثر کرتا ہے اس کے برعکس پچھلے چند سالوں میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ڈینگی صرف اور صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ، اساتذہ اور تعلیم کے لیے انتہائی مہلک بیماری کے طور پر ابھرا ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب نے پچھلے چند سالوں سے تعلیمی اداروں میں ڈینگی کوعلاقائی مرض کے طور پر ظاہرکیاہے۔

 عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈینگی مچھر 25 سے 28 ڈگری سینٹی گریڈ میں نمو پاتا ہے اور بیماری کا باعث بنتا ہے جب  کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ڈینگی سردیوں میں بھی نمو پاتا دیکھا گیا ہے۔ اس موسم میں ڈینگی سے نہ صرف یہاں پر طلبہ، اساتذہ اور والدین متاثر ہو رہے ہیں بلکہ یہ تعلیم کش بھی  ثابت ہو رہا ہے۔اس کی حالیہ اہم ترین مثال ڈینگی مچھر سروے فارم ہیں جو چھٹیوں میں اساتذہ کو گھروں سے بُلا کر اور ایک ایک طالب علم کے گھر بھجوا کر مکمل کروائے جا رہے ہیں، اس کے برعکس پنجاب بھر میں طلباء و طالبات کو بغیر کتابوں کے اور بنا چھٹیوں کا کام دیے دو ماہ کی تعطیلات پر گھروں کو روانہ کردیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں ڈینگی بخار کی علامات میں تیز بخار، سر میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد اور جلد پر خارش وغیرہ شامل ہیں جب کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں ڈینگی سے متاثرہ اساتذہ کرام کی علامات ان علامات سے یکسر مختلف ہیں۔ان علامات میں سروے فارم پر کرنا، ڈینگی ایپ کا بے پناہ استعمال اور شدید حملے کی صورت میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز میں ایمرجنسی میٹنگز میں شمولیت وغیرہ شامل ہیں۔

دنیا بھر کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں علاقائی امراض پر قابو پانے کے لیے محکمہ صحت، صحت سے متعلق ذیلی ادارے، رضاکار تنظیمیں اور این جی اوز اپنے وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں اس کے برعکس پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے اساتذہ کرام انتہائی جدید طریقہ ہائے علاج استعمال کرتے ہیں جن میں ڈینگی آگاہی مہم، کمرہ جماعت میں ڈینگی کے پوسٹر لگانا، ڈینگی سے متعلق لٹریچر کا پرچار کرنا، ڈینگی کے خلاف نعرے بازی کرنا، ڈینگی سروے فارم اور ڈینگی ایپ پر 30 تصویریں بنا کر اپلوڈ کرناہے۔

ان طریقوں میں ڈینگی بخار کے لیے سب سے مہلک ڈینگی ایپ ثابت ہوئی ہے، روزانہ 30 تصویریں اپلوڈ کرنے سے ڈینگی مچھر کا شاید بال بھی بیکا نہ ہوا ہو لیکن پنجاب بھر کے زنانہ اور مردانہ سکولوں میں آئی ٹی ٹیچرز اس شدید گرمی اور چھٹیوں کے باوجود ڈینگی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔

ان میں سے سینکڑوں مرد اور خواتین آئی ٹی ٹیچرز جو دور دراز کے علاقوں میں تعینات ہیں کو ڈینگی ایپ کے لیے روزانہ 25 سے 50 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی کے دنوں میں نہ صرف ان پر مالی بوجھ کا باعث ہے بلکہ سکولوں میں چھٹیاں ہونے کے سبب خواتین اساتذہ کرام کے لیے سیکیورٹی رسک بھی ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے ڈینگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر جاری اس مہم نے اساتذہ کرام کو تحریری طور پر غلط رپورٹنگ پر مجبور کیا ہے کیونکہ اگر حقائق بیان کیے جائیں توسکول ہیڈز اور پرنسپلز کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز میں پیشیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ بعض ایسے مسائل ہیں جن کو حل کرنا محدود وسائل کے باعث سکولوں کے لیے ناممکن ہے، جیسا کہ سکولوں میں چار دیواری کی عدم موجودگی کے باعث اہل علاقہ کا مال مویشی سکول گراؤنڈز میں باندھنا، سیوریج کا گندہ پانی سکولوں میں چھوڑ دینا، سکول کے آس پاس سیوریج کے گندے نالے، کھلے گٹروں کی موجودگی، شہری اور دیہاتی سکولوں کی دیواروں کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر اور دوسرے بہت سے عوامل ہیں جن کو حل کرنا محکمہ تعلیم یا  بلدیاتی اداروں کا کام ہوتا ہے۔ حالیہ چند سالوں میں پنجاب کے سکولوں میں ڈینگی بخار جان لیوا تو نہیں لیکن تعلیم لیوا ضرور ثابت ہوا ہے۔

شیئر کریں
373
11