صائمہ بشیر (ملتان)
ایک پانچ سالہ معصوم بچی بک سٹور پر آئی اور دکان دار سے ایک پنسل اور ایک دس روپے والی کاپی کا تقاضا کیا۔ یہ دونوں چیزیں ہاتھ میں لے کر بڑی بے چارگی کے ساتھ دکان دار سے کہا: انکل! ایک کام کریں گے؟ جی بیٹا! بولو کیا کام ہے؟ دکان دار نے متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ انکل! وہ کلر پنسل کا پیکٹ کتنے کا ہے؟ مجھے چاہیے، ڈرائنگ کی ٹیچر بہت مارتی ہیں مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کر کے پیسے دے دوں گی۔ بچی کی بات سن کر دکان دار کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے کہا: بیٹا! کوئی بات نہیں، یہ کلر پنسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکان دار سے اس طرح چیز مت مانگنا اور کسی پر بھروسہ بھی مت کرنا۔ جی انکل! بہت بہت شکریہ۔ میں آپ کے پیسے جلدی دے دوں گی۔ بچی کے چلے جانے کے بعد دکان دار سوچنے لگا کہ خدانخواستہ اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکان دار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہو گا۔ نجی و سرکاری سکولوں کے اساتذہ سے گزارش ہے کہ خدارا اگر بچے کوئی کاپی، پنسل، مارکر وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجیے کہ کہیں ان کی غربت تو آڑے نہیں آرہی اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ اساتذہ کرام مل کر اٹھا لیا کریں۔ یقین جانیے، ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں۔