عائشہ شہزاد (ملتان)
زندگى اللہ کى عطا کردہ ایک خوب صورت نعمت ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے دنيا میں بھیجتا ہے اور جسے چاہتا ہے لمبى عمر عطا فرماتا ہے، اس میں کسى انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ سب انسانوں کى طرح ميرى بھى ايک زندگى ہے۔ ميرى زندگى کا آغاز ميرے والدين سے ہوتا ہے۔ انہوں نے شفقت اور محبت سے مجھے پالا پوسا اور ميرى تعلیم و تربيت کا اہتمام کيا۔ ہر طرح کى مشکلات خود برداشت کر کے مجھے آرام و سکون اور زندگى کى آسائشيں فراہم کرنے کى کوششيں کيں اور مجھے اس قابل بنايا کہ آج میں قلم کى نوک سے کاغذ پر اپنى زندگى کے بارے میں لکھ رہى ہوں۔
میں 2009ء میں پيدا ہوئى۔ ميرے دو بھائى اور ہم دو بہنیں ہیں۔ مجھے اپنے بھائيوں سے اور بہن سے بہت پيار ہے۔ ان کى وجہ سے میری زندگى میں خوشى اور ہلہ گلہ رہتا ہے۔ وہ ميرا اور میں ان آپس میں بہت خيال رکھتے ہیں۔ ہم ہر پريشانى میں ايک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ اس کے بعد ميرے تمام رشتے دار ميرے لیے بہت اہم ہيں۔ دکھ سکھ میں ايک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کے بنا میری زندگى ادھورى ہوتى ہے۔ ہم تمام رشتے دار ايک دوسرے کى خوشيوں میں شامل ہو کر اخوت و بھائى چارے کى عمدہ مثال پيش کرتے ہیں۔
ميرى زندگى کا اہم موضوع ميرا سکول ہے، جہاں سے ہم تعليم اور زندگى کے طور طريقے سیکھتے ہیں۔ ميرے والد صاحب نے مجھے چار سال کى عمر میں ایک نجی سکول میں داخل کروايا۔ میں نے اس سکول میں جماعت پنجم تک پڑھا۔ تعليم مہنگى ہوتى جا رہى تھى اچانک ميرے ابا جان کے کاروبارى مسائل پيدا ہونے شروع ہو گئے اور معاشى حالات ايسے نہ رہے کہ وہ میرے سکول کى فيس ادا کر سکتے، بڑى سوچ بچار کے بعد فيصلہ ہوا کہ مجھے سرکاری سکول میں داخل کرايا جائے اور يوں جماعت ششم میں مجھے گورنمنٹ مسلم گرلز ہائى میں داخل کرا ديا گيا ۔
مجھے ايک ٹیچر کے سپرد کيا گيا جن کا نام مس ريحانہ کنول ہے۔ انہوں نے نہ صرف مجھے نصابى تعليم دى بلکہ مجھ میں احساسِ ذمہ داری کو پروان چڑھايا۔ مجھے بڑوں کا ادب کرنا سکھايا۔ حقوق و فرائض اور گھر دارى کے طور طريقے بھى سکھائے۔ ان کے علاوہ باقى مضامين رياضى، جغرافيہ اور اردو کى ٹیچرز بھى بہت شفیق و مہربان ہیں۔ مجھے جنرل سائنس بہت مشکل لگتى تھى اور میں اس وجہ سے بہت پریشان رہتی تھی۔ سائنس کى سمجھ نہیں آتى تھى۔ پھر ہمارى سائنس کى ٹیچر جو ہمارى کلاس کو ملى، وہ بہت محنتى اور اچھے طريقے سے سمجھانے والى ملى کہ مجھے سائنس کا سبق کلاس میں ہى ياد ہو جاتا تھا۔ ان کى سمجھائى ايک ايک بات ذہن پر نقش ہو جاتى، اس طرح ميرى سائنس کى مشکل بھى حل ہو گئى۔ کبھى کبھى وہ ہم سے ماڈل بھى بنواتىں۔
ہمارے سکول کى تمام ٹیچرز بہت محنتى، اعلیٰ تعليم يافتہ اور اچھے اخلاق کے حامل ہیں۔ ہمارے سکول کى پرنسپل محترمہ مہ طلعت صاحبہ بہت اچھى اور متحمل مزاج ہیں۔ تمام طالبات اور اساتذہ کى ہر طرح سے راہنمائى کرتى ہیں۔ وہ سکول کی صفائى ستھرائى سے لے کر نصابى و ہم نصابى سرگرميوں میں طالبات کے حصہ لینے تک، ہر معاملے میں معاون و مدد گار ہوتى ہیں۔ سکول میں حسن قرآت، حسن نعت، مضمون نويسى اور بيت بازى کے مقابلہ جات کرواتى ہیں اور طالبات کى انعامات سے نوازتى ہیں۔ اس سے تعليم کے ساتھ ساتھ ہم دوسرے مقابلہ جات میں بھی اعتماد سے حصہ لے سکتے ہیں۔ سکول میں ميرى ايک دوست بھى ہے جس کا نام عنايہ على ہے وہ بہت اچھى ہے ہم مل کر پڑھتى ہیں۔ وہ ميرى پڑھائى میں مدد کرتى ہے اور میں اس کى مدد کرتى ہوں ۔
اب میں اپنا ذاتى تجزيہ پيش کروں جو میں نے پرائيويٹ اور گورنمنٹ سکول میں محسوس کيا ۔
پرائيويٹ سکول
اس میں کلاسز سجى سنورى ملتى ہیں۔
اس میں کسى قسم کى سرگرمى نہیں ہوتى۔
پرائيويٹ سکول میں ہر طرح کى اشيا خود خريدنى پڑتى ہیں مثلا کتابيں کاپياں۔
وہاں پر کسى کو کمتر اور کسى کو بہتر سمجھا جاتا ہے جيسے کسى ٹیچر کا بیٹا یا بیٹی۔
پرائيويٹ سکول میں منتخب کردہ سلیبس مرضى سے کانٹ چھانٹ کر کے پڑھايا جاتا ہے اور بنے بنائے نوٹس ملتے ہیں۔
گورنمنٹ سکول
گورنمنٹ سکول میں ہم خود اپنى محنت اور لگن سے اپنا کمرہ جماعت سجاتى ہیں۔
گورنمنٹ سکول میں ہم نصابى سرگرمياں مثلا بيت بازى، مصورى، سلائى کڑھائى، آرٹ اور کرافٹ وغيرہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
اساتذہ کی رہنمائی میں ہم اپنے نوٹس خود لکھتے ہیں اور لکھتے لکھتے جلد ياد ہو جاتا ہے ۔
گورنمنٹ سکول میں کتابيں مفت دى جاتى ہیں۔
گورنمنٹ سکول میں سب کے ساتھ برابرى کا سلوک کيا جاتا ہے کسى کو برترى حاصل نہیں۔
ميرا يہ مطلب ہرگز نہیں کہ پرائيويٹ سکول اچھے نہیں ہوتے، لیکن گورنمنٹ سکول میں طلباء و طالبات نصاب کے ساتھ ساتھ اور بھى بہت کچھ سيکھ جاتے ہیں۔ کسى نے کيا خوب کہا ہے کہ سکول جيسا بھى ہو بچہ پڑھنے والا ہو تو کسى بھى سکول میں پڑھ سکتا ہے۔