محمد حسیب ارشد (مظفر گڑھ)
ایک گاؤں میں چار عورتیں رہتی تھیں۔ ایک دن وہ پانی کے گھڑے بھرنے کے لیے جا رہی تھیں کہ راستے میں ایک بڑھیا ملی۔ کچھ دیر سستانے کی غرض سے وہ بڑھیا کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ بڑھیا نے باتوں باتوں میں ان کے بچوں کے بارے میں سوال کیا۔ چاروں نے اپنے بچوں کی کہانی سنائی۔ ایک عورت نے کہا میرا بیٹا پڑھائی میں ہمیشہ اوّل آتا ہے۔ دوسری عورت بولی کہ میرا بیٹا کُشتی کے کھیل میں اوّل آتا ہے۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرے بیٹے کی آواز اتنی اچھی ہے کہ وہ جب بھی گاتاہے تو اوّل آتا ہے۔ چوتھی عورت بولی کہ میرے بیٹے کی تربیت بہت اچھی ہے۔ اتنے میں ان چاروں عورتوں کے بچے سکول سے چھٹی ہونے کے بعد واپس لوٹتے ہوئے اپنی ماوّں کی طرف دوڑے چلے آئے۔ پہلے بچے نے آتے ہی ماں کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کہا کہ میں آج کے ٹیسٹ میں اوّل آیا ہوں۔ دوسرے بچے نے خوشی سے کہا: ماں! آج میں نے کشتی کے کھیل میں اپنے مخالف کو پچھاڑ دیا اور پورے سکول میں اوّل آیا ہوں ۔ تیسرے بچے نے کہا میں آج گانا سنانے میں اوّل آیا ہوں۔ چوتھے بچے نے آتے ہی فوراً اپنی ماں کے سر سے گھڑا اٹھا لیا اور اپنے سر پر رکھ لیا. بڑھیا نے حسرت بھرے لہجے میں کہا: یہاں تو ایک ہی سعادت مند بچہ ہے جس نے آتے ہی اپنی ماں کا بوجھ ہلکا کیا ہے۔