ساجدہ بی بی (لودھراں)
درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اہل فارس کی عمریں بہت طویل ہوتی تھی، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فارس کے بادشاہ نہروں کی کھدائی اور شجرکاری میں بہت رغبت رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی عمریں بھی بہت لمبی ہوا کرتی تھیں۔ تفسیر کبیر میں درج ایک واقعہ کے مطابق ایک نبی نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں استفسار کیا تو ﷲ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد کرتے ہیں، اسی وجہ سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ احادیث میں پودے لگانے کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں جو پرندہ یا انسان یا چوپایہ کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہو گا۔ ایک مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے درخت لگایا پھر اس کی حفاظت کی اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل ﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس (لگانے والے) کے لیے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد) سائنسی تحقیق کے مطابق بھی شجرکاری کے بڑے فوائد ہیں۔ درخت آلودہ ہوا لے کر اپنی پاکیزہ ہوا دیتے ہیں۔ درجہ حرارت کو بڑھنے نہیں دیتے۔ درخت اور پودے فضائی آلودگی میں کمی کرتے ہیں۔ درخت لینڈ سلائڈنگ کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں۔ درختوں کی کثرت سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔ یہ عالمی حدت پذیری میں بھی کمی کا سبب بنتے ہیں۔ عالمی حدت پذیری کی وجوہات میں درختوں کا کاٹنا، صنعتوں کا قیام اور گاڑیوں کا بے تحاشا دھواں شامل ہے۔ درخت لگا کر ان تمام نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔