غلام شبیر (مظفر گڑھ)
ہماری سوچ اور انداز فکر دو طرح کا ہو سکتا ہے مثبت اور منفی۔ مثبت رویے اپنانے اور منفی رویوں سے احتراز برتنے کی ضرورت ہے لیکن ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ مثبت انداز کم اور منفی رویے زیادہ پنپ رہے ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کتنی جامع بات ہے۔ فضائل اخلاق مثبت رویہ اور انداز فکر ہے۔ اس کے مقابلے میں رذائل اخلاق منفی رویہ اور انداز فکر ہے۔ صبر، شکر، ایفائے عہد، وقت کی پابندی، نظم و ضبط، اخوت، ایثار یہ سب مثبت رویوں کااظہار ہے۔ اس کے مقابلے میں حسد، کینہ، بغض، عداوت اور تکبر منفی رویوں کی نشانیاں ہیں۔ بولنا، سننا، دیکھنا، سوچنا یہ سب رویے ہیں۔ اس لیے تو نبی رحمت ﷺ نے زبان پر جنت کی ضمانت دی۔ یہ رویے شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار اداکرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت حتیٰ کہ جانوروں تک پر رحم کی اسلام ہدایت دیتا ہے۔ اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے مثبت اصولوں کو اپنا لیں اور منفی رویوں سے اپنے آپ کو بچا لیں تو ہمارے معاشرتی مسائل کا اس سے خاتمہ ممکن ہے۔ فضول خرچی اور بخل سے پرہیز کریں۔ میانہ روی اختیار کرنے سے ہمارے مسائل کس قدر کم ہو سکتے ہیں، شکر کی صفت ہماری نعمتوں کو اور بڑھا سکتا ہے۔ صبر سے توکل اور استقامت جیسی خوبیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ مثبت اورمنفی رویوں کی یہ کشمکش روز اول سے جاری ہے اور ہمیشہ رہے گی۔