عتیق الرحمٰن (راجن پور)
استاد وہ عظیم ہستی ہے جس کا مقام بہت بلند ہے۔ استاد نونہالان وطن کی تعلیم کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ استاد کی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ استاد بچوں کو جہالت کے گڑھے سے نکال کر علم کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر والدین ہماری جسمانی نشوونما کا سامان فراہم کرتے ہیں تو اساتذہ ہماری روحانی تربیت کا سبب بنتے ہیں۔ کسی دانا کا قول ہے کہ استاد کا ادب کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میں اس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو آزاد کر دے اور اگر چاہے تو غلام بنا لے۔ امام اعظم حضرت ابو حنیفہ اپنے استاد حضرت حماد کا بہت زیادہ ادب کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے بیٹے کا نام بھی اپنے استاد کے نام سے رکھا۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں ادب کی وجہ سے کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹاتا تھا کہ اس کی وجہ سے میرے استاد کو تکلیف نہ ہو۔ امام احمد بن حنبل ایک مرتبہ کسی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران میں ان کے استاد ابراہیم بن طعمان کا ذکر آیا، ان کا نام سنتے ہی فورا سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا یہ نازیبا بات ہو گی کہ بڑوں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگا کر بیٹھے رہے۔ ان اکابرین نے اپنے اساتذہ کرام کا جو ادب و احترام کیا اس کی وجہ سے باری تعالیٰ نے ان کو شہرت و عزت کی بلندیوں تک پہنچایا اور آج ہم ان لوگوں کا نام لیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں تو ہمیں ان اکابرین کی طرح اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرنا چاہییے۔