مشعل زہرا (مظفر گڑھ)
پیارے بچو! ایک شخص نے صابن کا کاروبار شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی پراڈکٹ مشہور ہو گئی۔ گاہکوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے چھوٹی سی فیکٹری میں ڈبل شفٹ میں کام ہونے لگا۔ ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ اس پراڈکٹ کو اپنے نام رجسٹرڈ کروا لو۔ اس نے حامی بھری لیکن آج کل کرتے کئی ہفتے گزر گئے اور رجسٹریشن نہیں کروائی۔ دوسری طرف جب ایک شخص نے اس صابن کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ دیکھی تو اس فارمولے اور نام سے صابن تیار کر کے مارکیٹ میں سپلائی شروع کر دی اور پراڈکٹ کی اپنے نام رجسٹریشن کروا لی۔ اس نے اصل مالک پر عدالت میں کیس بھی کر دیا کہ یہ ہماری پراڈکٹ جعلی طور پر تیار کر کے بیچتا ہے۔ اس شخص نے بہت شور مچایا لیکن کسی نے اس کی نہ سنی، آخر کار اصل مالک کو پراڈکٹ سے ہاتھ دھونا پڑے اور مالی نقصان الگ ہوا۔
یہ کام آج نہیں کل کروں گا۔ ابھی نہیں بعد میں کروں گا۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے کام ہو جائے گا۔ یہ جملے آ پ کو کتنی مرتبہ سننے کو ملتے ہیں۔ دیکھا جائے تو لوگوں کی اکثریت ٹال مٹول کی منفی عادت میں مبتلا ہے۔ قرض واپس کرنا ہو تو ٹال مٹول، استعمال کے لیے کسی سے کوئی چیز لی تو واپسی کے لیے ٹال مٹول، دکان یا مکان کا کرایہ ادا کرنے میں ٹال مٹول، کسی بیماری کی تشخیص کے لیے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کروانے میں ٹال مٹول، شوگر، بلڈ پریشر، ہارٹ پرابلم وغیرہ میں مبتلا ہونے والوں کا معائنہ کرنے میں ٹال مٹول، موٹاپے کا شکار شخص کا کم کھانے میں ٹال مٹول، طالب علم کا محنت کرنے میں ٹال مٹول، کاری گر کا بروقت چیز ٹھیک کرنے میں ٹال مٹول، نماز، حج اور زکوۃ جیسی فرض عبادتوں کی ادائیگی میں ٹال مٹول اور گناہوں سے توبہ کرنے جیسے بے شمار کاموں میں ٹال مٹول کرنا یہاں کا رواج پا چکا ہے۔ ٹال مٹول کا ناسور ہمارے معاشرے کے سکون، ترقی اور خوشحالی کو چاٹ رہا ہے۔ پیارے بچو! ہمیں چاہیے کہ کام کو کل پر چھوڑنے کی بجائے ہم وقت پر زیادہ کام کرنے کی عادت اپنائیں۔