عائشہ امتیاز (وہاڑی)

 پیارے بچو! کسی جنگل  کے ایک حصے میں ریچھ اور دوسرے حصے میں بندر رہا کر تے تھے۔ ریچھوں نے سوچا کہ کیوں نہ سارے جنگل پر قبضہ کر لیا جائے۔ چنانچہ ایک دن انھوں نے بندروں پر حملہ کر دیا اور انھیں جنگل سے نکال باہر کر کے سارے جنگل پر قبضہ کر لیا۔ بندروں سے ان کا وطن چھین لیا گیا۔ وہ بھوک کے مارے ادھر ادھر بھٹکنے لگے۔ یہ دیکھ کر ایک بندر کا دل بہت کڑھا۔ اس نے سب کو جمع کیا اور کہا کہ میری بات مانو مجھے زخمی کرو، جگہ جگہ سے کھال نو چ لو اور جہاں سے ہمیں نکالا گیا وہیں پھینک دو۔ میں کچھ تدابیر کروں گا اور ہمیں اپنا وطن واپس مل جائے گا۔ بندر ایسا کرنا تو نہیں چاہتے تھے مگر وطن کی خاطر مان گئے۔ ریچھوں نے ایک زخمی بندر کو دیکھا تو پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ تمھیں معلوم ہے کہ یہ جنگل ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے واحد مالک ہیں۔ زخمی بندر نے آہیں بھر کے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں کو تمھارا غلام بن کر رہنے کا کہا تو انھوں نے میرا یہ حال کر دیا۔ وہ ایک ایسے جنگل میں چلے گئے ہیں جہاں ہری بھری گھاس ہے، چشمے ٹھنڈا پانی اگل رہے ہیں، جنگل میں پھل دار درخت ہیں، غرضیکہ جنگل کیا ہے بہشت کا قطعہ  ہے۔ ریچھ حریص تو ہوتے ہی ہیں۔ انہوں نے زخمی بندر سے کہا کہ تم ہمیں وہاں لے چلو، ہم انتقام بھی لیں گے اور تمھارے زخموں کا علاج بھی کریں گے۔ زخمی بندر مان گیا۔ انھوں نے ایک ریچھ پر بندر کو لاد لیا اور بندر کی رہنمائی میں چل پڑے۔ رات بھر چلتے رہے، ایک جگہ معمولی کیچڑ تھی اور آگے گہرا دلدل۔ زخمی بندر نے کہا کہ اس دلدل سے آگے وہ جنت نظیر جنگل ہے۔ تم بے خطر ہو کر آگے بڑھو۔ ریچھ آگے بڑھنے لگے تو بندر بجلی کی سی تیزی سے ریچھ کی پیٹ سے اتر کر درخت پر چڑھ گیا۔ سارے ریچھ دلدل میں اتر گئے۔ اگلی صبح سارا جنگل سنسان پڑا تھا۔ بندروں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ جنگل واپس ملنے پر بندروں نے جشن منایا۔ ان کو اپنی ساتھی کی ذہانت اور ایثار سے اپنا جنگل  واپس مل گیا تھا اور ریچھوں کو ان کے کیے کی سزا مل گئی۔

شیئر کریں
685
10