نمرہ عمران (لیہ)
جنگل کے کنارے جھونپڑی میں ایک بڑھیا بالکل اکیلی رہتی تھی۔ وہ گزر بسر کے لیے جنگلی پھل کھاتی اور قریب ہی بہتی ندی کا پانی اور اس کی مچھلیاں بھی استعمال کرتی تھی۔ایک دن جب وہ پانی پینے کے لیے ندی پر گئی تو وہاں اسے ایک عقاب زخمی حالت میں ملا۔بڑھیا جلدی سے زخمی عقاب کو اپنی جھونپڑی میں لے آئی۔مرہم پٹی کے بعد بڑھیا نے زخمی عقاب کو گھاس پر لٹا دیا۔کچھ دن بعد عقاب بالکل ٹھیک ہو گیا تو اس نے اُڑان بھری،اور یہ جا وہ جا، لیکن کچھ دیر بعد آکروہ بڑھیا کے پاس بیٹھ گیا اور احسان مند نظروں سے اسے دیکھنے لگا، جیسے اپنی زندگی بچانے پر وہ بڑھیا کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔بڑھیا اس وقت مچھلی پکڑنے جا رہی تھی ، چلتے چلتے اچانک بڑھیا کی نظر عقاب کے ناخنوں پر پڑی تو وہ رُک گئی اور خود کلامی کرتے ہوئے کہا، اوہو یہ تو اتنے لمبے ناخنوں کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کھا سکے گا اوربھوکا ہی مر جائے گا۔ یہ سوچ کر بڑھیا نے جھٹ عقاب کو پکڑا اور د رانتی کے ایک وار سے عقاب کے ناخن پنجوں سمیت کاٹ لیے اور مچھلی پکڑنے چل پڑی۔ واپسی پر اس نے عقاب کو بے سدھ پڑے دیکھا تو مسکرائی اور خود سے کہا کہ سونے دو بے چارہ تھکا ہوا ہے پھر بڑھیا خود بھی سو گئی۔ شام کو جاگنے پر اس نے دیکھا کہ عقاب اسی حالت میں پڑا ہوا ہے۔وہ عقاب کے قریب گئی، بڑھیا تو اسے سوتا ہوا سمجھ رہی تھی لیکن عقاب زیادہ خون بہنے کی وجہ سے مر چکا تھا۔بڑھیا شرمندہ سی سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔بڑھیا کی نادانی کی وجہ سے ایک قیمتی پرندہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔