عصرِ حاضر اور سرکاری  درس گاہیں

عاصمہ زہرا خان (مظفرگڑھ)

                ہم خود کو اشرف المخلوق کہتے ہیں۔ کس وجہ سے ہم اللہ کی باقی ساری مخلوقات سے افضل ہیں؟ اللہ پاک نے کیوں فرشتوں جیسی  پاکیزہ مخلوق  کو  حضرت انسان کے سامنے سجدہ ریزہونے کا حکم صادر فرمایا؟  فرمان ربی ہے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔   یعنی جو انسان جتنا علم میں بڑھتا جائے گا، اتنا ہی اس کے درجات بلند ہوتے جائیں گے۔  علم کا مطلب جاننا  ہے لیکن  مفیدعلم کے حصول کے بعداگر اس پر  عمل پیرا نہ ہوں تو انسان کامل نہیں بنتا۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

 اللہ تعالیٰ نے انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی خوب انتظام کیا۔ اپنے پیغمبروں کو بھیجا، جو ہمیں کتابِ حکمت کی تعلیم دیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں اور معاشرے کے بہترین انسان بنیں۔

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

صدیوں سے ہماری درس گاہیں انسان کی شخصیت  اورکردارسازی میں اپناکردار ادا کرتی آئی ہیں۔ ہم نے اپنے سرکاری درس گاہوں کو بہتر بنایا۔ ان سرکاری درس گاہوں  میں حکومت میرٹ پر بہترین اساتذہ بھرتی کر تی ہے۔ اکیسویں صدی میں میرٹ اتنا شفاف اور لازمی ہو گیا ہے کہ ہزاروں میں سے چند قابل اورنمایاں تعلیم یافتہ لوگوں کو سرکاری اداروں کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے چُنا جاتا ہے۔مگر قوموں کا رجحان، عادات اور سوچ بھی تو صدیوں میں بدلا کرتی ہے۔ آج بھی ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل  اساتذہ کی زیرِ نگرانی پڑھانے کی بجائے  نجی  تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر فوقیت دیتے ہیں۔ حالانکہ ان اداروں سے متعلق ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں اب ان لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے، جو سرکاری اداروں سے ناکام لوٹتے ہیں۔ پھر ان میں سے بھی صرف وہی افراد جو کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے پر را ضی ہو جائیں۔ ظاہر ہے ان میں اکثریت کم ذہانت والے افراد کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ متوسط ذہانت کے لوگ دیگر معاشرتی اداروں میں ہی اپنا مناسب روزگار تلاش کر لیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہماری حکومت  تعلیم کے میدان میں احسن اقدام اٹھا رہی ہے اور اس شعبے میں ہر سال خطیر رقم صرف کر رہی ہے۔ لیکن  ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ   بین الاقوامی طے شدہ معیارکے مطابق  کیا جائے۔سرکاری سکولوں کےاساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کی تعلیم و تربیت اور نظم و ضبط کومزید بہتر بنائیں  تاکہ سرکاری درس گاہوں پر طلبہ، والدین اور معاشرے کا ااعتماد بحال ہو۔  والدین اور معاشرے کی توجہ بھی اس امر کی طرف دلائی جائے کہ وہ اپنی سرکاری درس گاہوں پہ بھروسہ کریں اور اپنے بچوں کو ذہین، قابل اور محنتی اساتذہ کی زیرِ نگرانی تعلیم و تربیت دلائیں۔ کیونکہ جس قدر ہمارے سرکاری ادارے ترقی کریں گے اتنا ہی ہماری قوم بھی ترقی کرے گی۔

شیئر کریں
225
1