ساجدہ نظر (ملتان)
کتنى پر شکو ہوادى ہے۔ ہر طرف خوشى ہے۔ ہر ایک جوان ہے۔ سب سلجھے ہوئے مہذب۔ اور دور انديش اتنے کہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر فخر محسوس ہونے لگتا ہے۔ ايک دوسرے کا احساس، مروت، لحاظ اور عقائد و نظريات اتنے شستہ اور پاکيزہ کہ عقل ششدر رہ جائے کہ فرشتے کے روپ میں اس دنيا میں اللہ کے نائب ہونے کا فرض بخوبى نبھاتے نظر آتے ہیں۔ کسى مرد سے بات کرو تو زیادہ تر اعلیٰ کردار کا حامل انجينئر اور عمر اٹھارہ سے بتیس سال کے درميان، اس سے زيادہ کوئى نہیں ہوتا۔ اور ماشاء اللہ اس کی ذات علامہ اقبال کے مرد مومن کى تمام خصوصيات کا مرقع نظر آتی ہے۔ دوسرى طرف صنف نازک مطلب لڑکيوں کى طرف دیکھیں تو تقريبا تمام 16 سے 23 سال کے درميان ہیں اور کوئى اگر 25 سال کا کہہ دے تو دوسرى بات کہ شادى شدہ ہو؟ اور اگر وہ کہہ دے کہ نہیں تو بس پھر يہ احساس دلايا جاتا ہے کہ ميرے تو اس عمر میں تين بچے ہو گئے تھے ۔ آپ کی عمر تو بہت زيادہ ہو گئى ہے۔ نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ وہ بھى بتانا شروع کر ديتى ہے کہ 20سال کى ہے ۔ حيرت انگيز بات یہ ہے کہ ہر لڑکى بہت خوبصورت ہوتى ہے ۔ اس کا قد بھى لمبا ہوتا ہے۔ رنگ گورا ، تیکھےنقوش گويا کسى شاعر کى غزل کے اشعار ہوں جيسے ۔ اور رہن سہن سب کا اميرانہ ،ٹھاٹھ باٹھ، سير سپاٹے، ادھر مرى جارہے ہیں ،ادھر آزاد کشمير کاغان ناران چلے گئے اور خوراک کى بات تو مت پوچھو ،کدو تورى ٹینڈے گاجر مولى تو کبھى دیکھے تک نہیں، بس چکن پیس، چکن جل فريزى، شوارما ، برگر، پیزا کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔کسى کو بھی کوئى مالى و معاشى مسائل نہیں ہوتے ۔ سب معاملہ فہم اور دور انديش، کائناتى تغيرات پر غور و فکر کرنے والے ، ستاروں پر کمنديں ڈالنے والےاور اپنے آباؤ اجداد کے تابناک ماضى کے محافظ نظر آتے ہیں۔ والدين کے اتنے فرماں بردار کہ بس انسان ہونے پر فخر ہونے لگتا ہے۔ بہن بھائى اور قریبی رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمى کے بحر بے کراں لیے ہوئے ۔ حسد ، نفرت ، بغض اور کينہ سے دور دور کا تعلق نہیں ۔ ہر کسى کى بات تحمل سے سنتے اور بہت محبت سے پذيرائى کرتے نظر آتے ہیں۔انسان میں تجسس فطرى طور پر بدرجہ اتم موجود ہے اور انسان جو نہیں ہوتا وہ بننے کى کوشش و سعى کرتا ہے۔اور اس پرسکون وادی جنت نظير میں بہت سے مرد و زن اپنے اس فطرى جذبےکی تسکين کرتے بھى نظر آتے ہیں۔ مطلب کبھی مرد کے پیچھے عورت چھپ کر آجاتى ہے اور کبھى عورت کے روپ میں مرد نظر آتے ہیں۔ اکثر خواتين 18 سال کى اور پنجاب گروپ آف کالجز کى طالبات بن کر بہت اچھے انداز سے اپنے آپ کو لڑکی ثابت کرنے میں کامياب و کامران ہو جاتی ہیں۔اس سب کے باوجودتمام تہذيب و تمدن اور مذہب کى مخملى چادر اوڑھے نظر آتے ہیں تو حضرت انسان پر رشک آنے لگتا ہے، جس کى تخلیق پر فرشتوں نے خدشہ ظاہر کيا تھا کہ زمين پر فساد برپا کرے گا ليکن فرشتے بھى محو حيرت ہیں کہ کيا سے کيا ہو گيا ۔ میں اور مجھ جيسے اور بھى بہت سارے نو آموز اس جہان کے حيران پريشان کہ مارک زیگر برگ نے يہ کر کيا ديا۔