منیبہ یاسمین (لودھراں)
کسی گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا، اس کا نام حسیب تھا۔ اسے بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا۔ یوں کہیں شوق نہیں بلکہ جنون تھا۔ وہ پڑھائی میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اس کے والدین اسے کہتے کہ ابھی پڑھائی کا وقت ہے لیکن وہ یہی کہتا کہ پڑھائی کے علاوہ میں آپ کی ہر بات مانوں گا وہ پڑھائی کے لیے اپنے ابو سے بہت ڈانٹ سنتا تھا۔ پھر بھی وہ پڑھتا نہیں تھا اور میچ کھیلنے سے باز نہیں آتا تھا۔ وہ جب بھی ٹی وی پر کرکٹ دیکھتا تو وہ یہی کہتا تھا کہ ایک دن میں بھی کرکٹ کھیل کر اپنے ملک کا نام روشن کروں گا۔ کرکٹ اس کامقصد حیات بن گیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر میں کرکٹر نہ بن سکا تو کچھ بھی نہیں بنوں گا۔ جیسے تیسے اس نے میٹرک تو پاس کر لی، لیکن اب وہ پڑھائی چھوڑ کے کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ ایک دن اس کی امی نےاسے کہا کہ دیکھو بیٹا ! پہلے اپنی پڑھائی مکمل کر لو پھر اپنا مقصد پورا کرنا، کیونکہ قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کے لیے پہلے کرکٹ بورڈ میں سلیکشن ہوتی ہے، اگر تمہاری تعلیم نہیں ہو گی تو وہ تمہیں قومی ٹیم کے لیے منتخب نہیں کریں گے۔ تعلیم ڈگری کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی بھی دیتی ہے اور کھیلنے کے لیے بھی خود اعتمادی ضروری ہے۔ حسیب کو اپنی امی کی بات سمجھ میں آ گئی پھر اس نے کھیل کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی۔ آج وہ اپنے گاؤں کی ٹیم میں بہت اچھا کھیلتا ہے لیکن پڑھائی پر بھی توجہ دیتا ہے کیونکہ وہ سمجھ چکا ہے کہ اگر کچھ بننا ہے تو پہلے پڑھنا ہے۔ اور اسے یہ امید ہے کہ اگر وہ اپنے گاؤں کی ٹیم میں اچھا کھیل سکتا ہے تو وہ ایک دن قومی ٹیم کا حصہ بن کر ضرور ملک و قوم کا نام روشن کرے گا۔