مزاح کے بے تاج بادشاہ معین اختر سے آدھی ملاقات
کروڑوں دلوں پرراج کرنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ معین اختر بیک وقت ہمہ جہت فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ ایک ٹیلی ویژن اداکار، مصنف، میزبان، ہدایت کار، گلوکار، پروڈیوسر، مزاح نگار اور نقال(پیروڈی) کرنے والے تھے۔ ریڈیو پاکستان کے دور میں اسکرین ایکٹ کے ذریعے روزی سے شہرت حاصل کی اور پورے برصغیر میں ان کی دھوم مچ گئی۔ انھوں نے ہر عمر کے لوگوں کو اس طرح تسلی بخش انداز میں کامیڈی فراہم کی کہ آج تک اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے اپنے مزاح میں کبھی غیر اخلاقی لطیفوں کا استعمال نہیں کیابلکہ ادب کے دائرے میں رہ کر فنِ مزاح سے لوگوں کو محظوظ کروایا۔وہ ایک اچھے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف النفس، مشفق، شائستہ لب و لہجے کے مالک انسان تھے۔ معین اختر دل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ 60برس کی عمر میں،22اپریل2011ء کی سہ پہر کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آدھی ملاقات کے سلسلے میں ان کا زیرنظر انٹرویو مختلف اخبارات و جرائداور ٹیلی ویژن چینلز سے اخذ کیا گیاہے۔
٭٭٭٭٭
روشنی:مکمل نام اور اس کا لفظی مطلب؟
معین اختر:میرا مکمل نام معین اختر ہے۔ میرے نام کا لفظی مطلب مددگار ستارہ ہے۔
روشنی: آپ کے دوست آپ کو پیار سے کس نام سے پکارتے ہیں؟
معین اختر: سب معین بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔
روشنی:آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
معین اختر: 24دسمبر 1950ء کو شہر قائد کراچی میں۔
روشنی:آبائی گھر؟
معین اختر:میرے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان میں اترپردیش کے ضلع مراد آباد سے تھا۔ 1947ء میں تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہو گئے۔
روشنی: والد صاحب کا نام اور وہ کس پیشہ سے وابستہ تھے؟
معین اختر:محمد ابرہیم محبوب۔ہجرت کے بعد کراچی میں پرنٹنگ پریس کے ادارے کو مستحکم کیا،اور گارمنٹس انڈسٹری میں بطور ٹھیکیدار کام کیا۔
روشنی:آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور ان کے نام؟
معین اختر:ہم تین بھائی ہیں۔ مجھ سے دو چھوٹے بھائیوں کے نام شفیق انور اور محمد اسلم ہیں، جب کہ بہن کوئی نہیں۔
روشنی:آپ کے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام؟
معین اختر:تین بچے ہیں۔ دو بیٹے شرجیل اختر اور منصور اختر جبکہ ایک بیٹی نوشین اختر ہے۔
روشنی:سکول کا نام جہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کی؟
معین اختر:میٹرو پولیٹن سیکنڈری سکول۔
روشنی:سکول میں کیسی قابلیت تھی؟
معین اختر:بہت ہی ذہین اور قابل طالب علم تھا۔ لیکن مجھے اپنی فیملی کو سہارا دینے کے لیے کم عمری میں ہی عملی زندگی کی طرف آنا پڑا۔
روشنی:بچپن کیسا گزرا؟
معین اختر:(مسکراتے ہوئے) بچپن کچھ خاص اچھا نہیں تھا۔ بہت سیدھا سادہ سا تھا۔بہت زیادہ شرارتی نہیں تھا۔
روشنی:بچپن کی کوئی ایسی عادت جو ابھی تک برقرار ہو؟
معین اختر:بچپن میں میری ایک عادت تھی کہ اگر مجھے کچھ کھانے کو دیا جاتا تو میں گھر سے باہر نکل جاتا اور جب گھر آتا تو امی سے پھر کچھ کھانے کو مانگتا تھا۔ وہ حیران ہوتیں اور کہتیں کہ بیٹا ابھی تو کھانے کو دیا تھا،کہاں گیا؟ میں ہاتھ سے اشارہ باہر کی جانب کرتا تو ماں باہر جا کر دیکھتیں کہ کوئی دوسرا بچہ کھڑا وہ چیز کھا رہا ہوتا۔ تو یہ عادت بچپن سے میرے اندر ایسی رچ بس گئی کہ ابھی تک برقرار ہے۔ آج بھی دوستوں اور جاننے والوں کے ساتھ مل ملا کر کھانے کی عادت ہے۔ مطلب یہ کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ انھیں فائدہ پہنچے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ یہ بڑی اچھی عادت ہے۔
روشنی:آپ کو اداکاری کا شوق بچپن سے تھا؟
معین اختر:نہیں…ایسا نہیں ہے۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں شوبز انڈسٹری کی طرف آؤں گا۔ ہمارا جو زمانہ تھا، وہ بہت معصوم تھا۔ مجھے تو نہ شوبز کی جان پہچان تھی اور نہ ہی اس کا مطلب پتا تھا کہ شوبز ہے کیا؟ نہ تو مجھے شوبز پروٹوکول کا علم تھا اور نہ ہی لوگوں سے کوئی وابستگی اور گہرے مراسم تھے۔ بس یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے میرے لیے خود ایک اچھے راستے کا انتخاب کیا۔ اور میں ہمیشہ سب سے یہی کہتا ہوں کہ اللہ کا مجھ پر بڑا خاص کرم ہے۔ سب اسی کی عطا ہے۔ اس میں میرا کچھ نہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ اور ان سب لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے میری مدد کی، رہنمائی کی، میرا ساتھ دیا اور مجھے عزت بخشی۔
روشنی:کیا عمر تھی جب آپ نے پہلی بار اسٹیج پر ایکٹنگ کی؟
معین اختر:میں غالباً 15 سال کا تھا۔
روشنی:پہلی پرفارمنس کب کی اور کیسا محسوس ہوا؟ نروس تھے؟
معین اختر:بہت زیادہ نروس تھا۔ میں ایکٹنگ کے حوالے سے بالکل نروس نہیں تھا بلکہ کانٹینٹ کے حوالے سے نروس تھا کہ میں کیا سناؤں گا ناظرین کو۔ میں نے کوئی تیاری نہیں کی ہوئی تھی، نہ مجھے اندازہ تھا کہ میں کس ترتیب سے کیا کیا کہوں گا۔ جب میں اسٹیج پر چڑھا اور مائیک کی جانب بڑھا تو حاضرین سے درخواست کی کہ مجھے میرا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے صرف 10 منٹ دیے جائیں، اور اگر اس دوران کسی کو پسند نہیں آیا، تو میں خود اسٹیج سے اتر جاؤں گا۔ اور پھر میں نےانتہائی پراعتماد پرفارمنس دی، اور لوگوں نے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا۔ حاضرین میں ساٹھ سالہ شخص بھی ویسے ہی ہنس رہا تھا جیسے کہ کوئی آٹھ سال کا بچہ۔ اورپھر 10 منٹ کا مانگا گیا وقت 45 منٹ بعد ختم ہوا تو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔
روشنی:پہلی بار کام کی آفر کیسے ملی اور کیا تاثرات تھے؟
معین اختر:جب میں نے 6 ستمبر کو اسٹیج شو کیا تو وہاں دوسرے کالجز سے کچھ طلباء موجود تھے۔ پرفارمنس کے بعد انہوں نے مجھ سے بات کی اور کہا کہ ہفتے کے دن ہمارا ایک شو ہے وہاں آپ ضرور آئیے گا۔ اور انھوں نے مجھے ایڈوانس میں شاید پانچ یا دس روپے بھی دے دیے تھے۔ میں تب خوشی سے جھوم اٹھا اور ان روپوں کو مٹھی میں پکڑے گھر گیا۔ کسی کو بھی اس بارے میں نہیں بتایا تھا۔ کبھی چھپ کر واسکٹ کی جیب میں روپے رکھتا تو کبھی پینٹ کی جیب میں۔ میرے لیے وہ دن ایک خوشگوار دن بن گیا تھا۔
روشنی:فطرتاً طبیعت کیسی ہے؟
معین اختر:سادہ مزاج ہوں اور سنجیدہ بھی۔
روشنی:پسندیدہ رنگ؟
معین اختر:سرمئی اور سیاہ رنگ۔
روشنی: پسندیدہ پکوان اور مشروبات؟
معین اختر:مجھے انواع و اقسام کے کھانے پسند ہیں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ کھانے کی میز پر ہمہ قسم کے پکوان موجود ہوں لیکن میں کھاتا بہت کم ہوں۔ میری والدہ کو مجھ سے یہی شکایت رہتی ہے کہ تم پکوان زیادہ تیار کرواتے ہو مگر کھاتے بہت کم ہو۔اور میں چائے کا بے حد شوقین ہوں۔
روشنی:پسندیدہ لباس؟
معین اختر:مجھے تھری پیس سوٹ (پینٹ، شرٹ اور کوٹ) پسند ہے۔
روشنی:پسندیدہ اداکار؟
معین اختر:لہری اور دلیپ کمار۔
روشنی:کون سی زبانوں پر عبور حاصل ہے؟
معین اختر:اردو،انگریزی، سندھی،پنجابی،میمن،پشتو،گجراتی اور بنگالی۔
روشنی:پسندیدہ فلم جس میں آپ کی پرفارمنس آپ کے دل قریب ہو؟
معین اختر:مسٹر کے ٹو۔
روشنی:آرٹسٹ بطور پیشہ اپنانے کا خیال کیسے آیا؟
معین اختر:سکول میں ایک ڈرامہ وینس مرچنٹ میں شائی لاک کا کردار ادا کیا، تب مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنے فن کو بطور پیشہ اپنا سکتا ہوں۔ میں ایک آرٹسٹ بن سکتا ہوں۔
روشنی:خود کو بطور آرٹسٹ والدین کے سامنے کب متعارف کروایا؟ اور ان کا کیا رویہ تھا؟
معین اختر:مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، جب میں نے دوسرا شو پرفارم کیا تھا تب شاید مجھے بیس روپے میرے کام کی اجرت ملی تھی۔ جب میں گھر آیا اور اپنی والدہ کے ہاتھ میں وہ رقم تھما کر کہا کہ میں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے جس کا وقت عموماً شام سے رات تک کا ہے۔ تو میری والدہ کہتیں، اچھا اچھا رات کا کام۔پھر ایک دن کسی نے میرے والد کوبتایاکہ آپ کا بیٹا تو انتہائی ذہین ہے۔ والد صاحب کہتے کہ بھلا وہ کیسے ذہین ہوا،اسے تو سمجھا سمجھا کر میں تھک گیا ہوں وہ پڑھتا ہی نہیں، پڑھائی چھوڑ دی اور اسے گھر کو سپورٹ کرنے کی دھن سوار ہے۔ تو اس شخص نے کہا کہ آپ کا بیٹا بہت شاندار آرٹسٹ ہے۔ اسے کسی کمپنی کے شو میں پرفارم کرتے ہوئے دیکھا تھا، وہ تو بہت ہی کمال ہے۔یہ بات میرے والد صاحب کو برداشت نہ ہوئی۔(مسکراتے ہوئے)اللہ اُن صاحب کا بھلا کرے، اس دن میرے والد نے گھر آ کر مجھے بیلٹ سے بہت مارا اور کہا کہ تم ہماری ناک کٹوانا چاہتے ہو۔ اصل میں انھوں نے مجھ سے بہت بڑی توقعات رکھی ہوئی تھیں، وہ چاہتے تھے کہ میں پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بنوں۔ لیکن بس اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی کہ مجھے اسی کام سے عزت و شہرت ملی اور جسے اللہ دینا چاہے، اسے کون روک سکتا ہے۔
روشنی:آپ کے والدین نے بالآخر کب یہ بات قبول کی کہ آپ ایک آرٹسٹ ہیں؟
معین اختر:آہاں…یہ ایک دل چسپ کہانی ہے۔ تقریباً 35 سال بعد جب میں ایک شو میں پرفارم کرنے جا رہا تھا جہاں ملک کے صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی شرکت کرنا تھی، تو میرے والد نے میرے ساتھ شو میں شرکت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہاں سیکیورٹی پروٹوکول ہے، مجھے معلوم نہیں کہ یہ ممکن ہو پائے گا یا نہیں۔ تو اس پر والد کا صاحب نے کہا کہ تمہیں کون روکے گا بھلا؟ پھر میں نے رابطہ کر کے اجازت طلب کی تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کے والد صاحب ہمارے لیے محترم ہیں، آپ ضرور تشریف لائیں۔ جب ہم وہاں پہنچے، صدر پاکستان اپنی نشست سے کھڑے ہو کر میرے والد صاحب سے ملے اور انھیں بتایا کہ آپ کا بیٹا اس قوم کا اثاثہ ہے۔بعدمیں مجھے ستارہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا، انھیں بہت مسرت ہوئی، وہ انتہائی خوش تھے، میری ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کی دعائیں میرے ساتھ ہیں اور آج وہ کہتے ہیں اللہ تمہاری عزت میں اور اضافہ کرے۔
روشنی:ٹیلی ویژن پر کس شخصیت نے آپ کو متعارف کروایا؟
معین اختر:سید امیر امام نے متعارف کروایا جو ایک وقت میں پی ٹی وی کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تھے۔
روشنی:ٹیلی ویژن پر آپ 1967ء میں متعارف ہوئے۔ لیکن 75 اور 85 کے درمیان کے سال میں جو شہرت آپ کو ملی وہ اس سے پہلے نہیں تھی؟ کوئی خاص وجہ؟
معین اختر:(مسکراتے ہوئے)جی بالکل! یہی کہ اس وقت اللہ کی مہربانی کم تھی۔ بعد میں اللہ کا کرم شروع ہوا۔ اس کے کرم اور مہربانی کے بغیر آدمی آگے بڑھ نہیں سکتا۔ ہر گزرنے والا سال نئی خوشی دیتا ہے۔ اور اللہ سے دعا ہے کہ ہر آنے والا سال اچھا ہو۔
روشنی:آپ کی نظر میں آرٹسٹ کی تعریف؟
معین اختر:آرٹسٹ یونیورسل ہوتاہے۔ اس کا کسی کی ذات پات، رنگ نسل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آرٹسٹ ایک خوشبو کی طرح ہوتا ہے وہ جب پھیلتا ہے تو دنیا میں اس کی خوشبو پہنچتی ہے۔ لوگ اس کی خوشبو کو محسوس کرتے ہیں اور اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک آرٹسٹ کی خوبی اور تعریف ہے۔
روشنی:کس آرٹسٹ کے ساتھ کام کرنا زیادہ اچھا لگا؟
معین اختر:اصل میں بات یہ ہے کہ مختلف وقت میں مختلف لوگوں کے ساتھ کام ہوتا ہے اور مختلف وقت میں مختلف لوگ اچھے لگتے ہیں تو جن کے ساتھ کام کیا سبھی دوست ہیں،جان پہچان ہے تو ان سب کے ساتھ کام کر کے اچھا ہی لگتا ہے۔
روشنی:کون سا ایسا کردار ہے جو ابھی تک آپ نے نہیں کیا مگر اسے کرنے کی خواہش ہے؟
معین اختر:ویسے تو عام زندگی کے بہت سے کردار ہیں جو ابھی تک نہیں کیے۔ میں ایک نابینا کا رول کرنا چاہتا ہوں اور پاگل کا رول بھی۔ اگر کبھی مجھے موقع ملے تو ضرور کروں گا۔
روشنی:مزاحیہ کردار کیسے کر لیتے ہیں؟
معین اختر:خدا داد صلاحیتوں کو آپ چھپا نہیں سکتے اور نہ ہی اس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رضا شامل نہ ہو، تب تک آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ایک قدرتی فن ہے مجھ میں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کام کر کے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا۔ جب میں ٹیلی ویژن پر متعارف ہوا تب مجھے کسی بھی چیز کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ شکل بگڑ جاتی تھی۔ تاثرات پر کنٹرول نہیں ہوتا تھا۔ کردار میں ڈھلنا نہیں آتا تھا۔ پھر پاکستان ٹیلی ویژن نے پروموٹ کیا، گرومنگ کی۔ ہمارے سینئرپروڈیوسرز نے ہمیں بتایا اور سکھایا کہ شکل بگاڑ کر کامیڈی نہیں ہونی چاہیے، چہرے کے تاثرات پر کنٹرول ہونا چاہیے۔جب آپ کسی کے سامنے خود کو ایک الگ کردار کے ساتھ پیش کریں تو سلیقہ اور ٹھہراؤ ہونا چاہیے۔ بس اللہ کا شکر ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں سو فیصد اپنے کام میں مہارت رکھتا ہوں لیکن میں نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھ لیا۔
روشنی:معین اختر کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب یہ نام لیجنڈمعین اختر مشہور ہے۔ اس تبدیلی نے آپ کو کیا دیا؟
معین اختر:اس نے مجھے اور جھکاؤ دے دیا۔ میں بہت ہی عاجز و انکسار بن گیا ہوں۔ جو پہلے کرختگی تھی مجھ میں، وہ ختم ہو گئی۔ دنیا کو میں سچائی سے دیکھنے لگا۔ ایک ایسا آدمی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں، نہ کھانے پینے کا ہوش، فاقہ مستی اور مالی پریشانی وغیر ہ اور جب ایسے میں اس ذات باری تعالیٰ نے اچانک سب کچھ مجھے دیا، تویہ میرے لیے ایک بڑی آزمائش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے گمنامی کے اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لا کھڑا کیا۔ اور آج میرا نام پاکستان کے مشہور لوگوں کی فہرست میں شامل ہے تو یہ میرے لیے ایک آزمائش بھی ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے شہرت کے ساتھ عزت بخشی۔ ثم الحمدللہ۔
روشنی:ناظرین کے بقول جب آپ کوئی سنجیدہ کردار ادا کرتے ہیں تو آپ میں دلیپ کمار کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیا آپ دلیپ کمار سے متاثر ہیں؟
معین اختر:دیکھیں اول تو آ نہیں سکتی اور اگر آتی ہے تو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کیونکہ دلیپ کمار پورے برصغیر میں ایک ہی ہے۔ اور سب کا من پسند ہے۔
روشنی:تھکاوٹ کا احساس کیے بغیر آپ کو مسلسل بہت زیادہ کام کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے، چاہے وہ دن ہو یا رات۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
معین اختر:میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ میرے دماغ کی رفتار بہت تیز ہے۔ میرا دماغ نہیں سوتا۔ مجھے سکون کے لیے نیند کی گولیاں لینی پڑتی ہیں۔ اور جب تک جاگتا رہتا ہوں تو کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو دل میں رہتی ہے۔ میں فارغ نہیں بیٹھ سکتا، فارغ رہوں تو بیمار ہو جاتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں مسلسل کام ہی کرتا ہوں۔
روشنی:جس دن آپ کو محسوس ہوا کہ آپ کا دل کام نہیں کر رہا، کیا وہ دن یاد ہے؟
معین اختر:جی ہاں! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں تب جرمنی میں تھا اور ہم سب دوستوں نے آدھ میل کی دوری پر موجود ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کا پروگرام بنایا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس دن فضا میں ہلکی ہلکی سی خنکی تھی۔ میں نے اس دن بلیک ٹراؤزر اور بلیک ہائی نیک پہنی ہوئی تھی، ساتھ میں بلیک لیدر کی جیکٹ بھی۔مفلر اور گلوز بھی پہنے ہوئے تھے۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو مجھے ایک لمحہ کو محسوس ہوا کہ میری جان کسی نے نکال دی ہے۔ درد کی ایک شدید لہر دوڑی جسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنے دوست کو چیخ کر کہا کہ جلدی سے ایمبولینس بلواؤ۔ وہ جلدی سے ریسٹورنٹ کے استقبالیہ کی طرف دوڑا۔ وہ جیسے ہی باہر گیا میں ایک دم ٹھیک ہو گیا۔ میں نے اسے آواز دی کہ میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔ تو وہ کہنے لگے کہ یار معین کیوں ڈراتے ہو۔ بس اس وقت ایک عجیب سی کیفیت تھی کہ سمجھ نہ آئی کیا ہوا ایک لمحے کے لیے۔ پھر یہ تکلیف مسلسل دو سال تک رہی، لیکن میری لاپرواہی کہ دھیان نہیں دیا اور ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں گیا۔ پھر ایک دن شو میں اسکٹ کر رہا تھا کہ میں ایک دم سلو ہو گیا۔ مجمع میں موجود ہر شخص نے محسوس کیا کہ اسے کچھ ہو گیا ہے،حالت ٹھیک نہیں۔ پھر میں نے جلدی اس اسکٹ کو مختصرکر کے ختم کیا اور پردے کے پیچھے آگیا۔ پھرمیں فوراً ہسپتال گیا۔ ڈاکٹر نے انجیو گرافی کی تو پتا چلا کہ دل کے تمام والز بند ہو گئے تھے۔ انھوں نے فوراًہارٹ سرجری کا کہا۔ بہت سے لوگوں نے غیر ملک میں سرجری کروانے کا مشورہ دیا۔ لیکن ماشاء اللہ پاکستان میں بہت اچھے ڈاکٹر موجود ہیں۔ اور میں نے پاکستان میں ہی کارڈیو ویسکیولر ادارے سے ہارٹ سرجری کروائی۔
روشنی:کس رائٹر کے سکرپٹ پر آپ نے سب سے زیادہ کام کیا؟
معین اختر:انور مقصود پاکستان کے بہت بڑے رائٹر ہیں۔ انھیں بھی پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ میں ان کا بہت بڑا معتقد ہوں۔ جتنا میں نے ان کے لکھے سکرپٹ پر کام کیا، میرا نہیں خیال کہ کسی اور نے کیا ہو۔
روشنی:آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے شو کیے، پسندیدہ شو کون سا ہے؟
معین اختر:لوز ٹاک میرے دل کے بے حد قریب ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔
روشنی:لوز ٹاک میں آپ نے کتنے کرداروں سے ناظرین کو متعارف کروایا؟
معین اختر:لگ بھگ 400 کردار ادا کیے۔ لیکن ابھی بھی لگتا ہے مزید کردار کیے جا سکتے ہیں۔
روشنی:اگر آپ آرٹسٹ نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
معین اختر:دل چسپ سوال ہے… میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں آرٹسٹ بنوں گا۔ میری خواہش وکیل بننے کی تھی، میرے والد صاحب بھی یہی چاہتے تھے۔ لیکن جو اللہ نے چاہا۔ اور آج میں جو بھی ہوں، اپنے رب کا شکر گزار ہوں۔
روشنی:جب لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
معین اختر:ویسے تو آدمی کو اپنے کیے کام کی تعریف نہیں کرنی چاہیے لیکن جب مجھ سے لوگ میرے کام کی اتنی تعریف کرتے تھے تو میں نے دھیان سے بیٹھ کر دیکھا اور سنا۔ پھر مجھے اللہ تعالیٰ پر بڑا پیار آیا کہ اللہ نے مجھے اتنی صلاحیت دی ہے کہ میں یہ سب کر سکا۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے کیریئر میں اچھا اور شاندار کام کیا۔
روشنی:آپ کا مزاح، ایک مثبت مزاح ہے جو آپ کو دوسرے لوگوں سے نمایاں کرتا ہے۔ تو مزاح کا یہ مثبت پہلو آپ کے اندر کیسے آیا؟
معین اختر:میں جن لوگوں میں اٹھا بیٹھا ہوں یا یوں سمجھیں کہ میری جن لوگوں میں صحبت رہی ہے ان میں قریش پور، عبیداللہ علیم، عبیداللہ بیگ، جون ایلیا، شبنم رومانی، احمد ہمیش، افتخار عارف اور اقبال صفی پوری وغیرہ شامل ہیں۔ ان پڑھے لکھے لوگوں سے تعلق رہا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ مذاق بھی کرتے ہیں تو بڑی شائستگی اور شستہ رویے میں کرتے ہیں۔ یعنی ایسے فقرے بازی کرتے ہیں کہ سن کر دل خوش ہو جاتا ہے اور شرمندگی نہیں ہوتی۔ اب دیکھیں کہ بڑے آدمی جملے بازی کیسے کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی، صادقین صاحب کی پینٹنگز دیکھنے کے لیے ان سے ملنے گئے۔ اس زمانے میں صادقین صاحب تجریدی آرٹ کرتے تھے۔ تجریدی آرٹ سمجھنے کے لیے بھی ایک ذہن چاہیے ہوتا ہے کیونکہ ان بکھرے ہوئے رنگوں میں آپ کو مصور کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ اس آرٹ کے پیچھے کیا سوچ کار فرما تھی اور یہ کس وقت بنائی گئی۔ اور یہ بھی کہ پینٹنگ کس چیز کی عکاسی کرتی ہے۔اب جوش ملیح آبادی اور صادقین صاحب دونوں اپنی اپنی فیلڈ میں مہارت رکھنے والے اور نمایاں کارگر ثابت تھے، جوش صاحب صادقین کی مصوری کے نمونے دیکھے جا رہے تھے۔ پھر کہنے لگے : معاف کرنا صادقین! آپ کی یہ پینٹنگ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔تو صادقین نے جوش صاحب کو جواب دیا: سر! جب میں سات برس کا تھا تو تب مجھے بھی آپ کے اشعار سمجھ میں نہیں آتے تھے۔اب آپ خود دیکھیے کہ کیسا بھلا اور اچھامذاق ہوتا تھا۔
روشنی:ایک ہزار کے مجمع کو کیسے کنٹرول کر لیتے ہیں؟
معین اختر:بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی پر مہربان ہوتا ہے تو کائنات کی ساری چیزیں خود بخود ہی مہربان ہو جاتی ہیں،پھر کسی کی جرأت نہیں کہ آپ کو بے عزت کرے یا آپ کے خلاف جائے۔ بس اللہ کی کرم نوازی ہے کہ اس نے زبان میں اثر دیا کہ لوگ سنتے ہیں، بات کرتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں،پیار اور عزت دیتے ہیں۔
روشنی:کوئی یادگار واقعہ؟
معین اختر:بچپن میں جب میں اسکول میں پڑھتا تھا تو میں اپنے ٹیچرز کی کاپی بہت کرتا تھا۔ تب ہمارے ایک استاد ضیاء الاسلام صاحب تھے جو اسلامیات اور فارسی پڑھاتے تھے۔ وہ بہت مارتے تھے، سب بچے ان سے ڈرتے تھے۔ ایک دن ان کی غیر موجودگی میں، میں نے کلاس میں ان کی پیروڈی شروع کر دی۔ اچانک کلاس میں سناٹا چھا گیا، سارے بچے ہنستے ہنستے یک دم خاموش ہو گئے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو استاد صاحب کھڑے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ مجھے ڈانٹ نہ دیں لیکن وہ مسکرا رہے تھے۔ پھر قسمت دیکھیے کہ ایک دن میں رات کو اپنی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا کہ انھیں راستے میں کھڑے دیکھا۔ میں فوراً گاڑی سے اترا اور ان کو سلام کیا، وہ مجھے دیکھ کر حیرانی سے بولے کہ واہ بڑا زبردست چل رہا ہے، بہت شرارتیں کرتے ہو ٹی وی پر۔ تو میں نے کہا بس دعا ہے آپ کی۔ کہنے لگے کہ بھئی کسی دن میرے گھر آؤ، بچے یقین نہیں کرتے کہ میں تمہارا استاد ہوں۔
روشنی:فارغ اوقات میں آپ کیا کرتے ہیں؟
معین اختر:کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ کبھی کبھار بیٹے کے ساتھ شطرنج اور اسنوکر کھیلتا ہوں۔
روشنی:ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ موجود ہوتا ہے، لیکن انسان کو کیسے علم ہو سکتا ہے اس میں وہ صلاحیت موجود ہے؟
معین اختر:بات بہت ہی سادہ ہے۔ ہم کبھی کسی چاہنے والے پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ انھوں نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ تو کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے اس میں وہ صلاحیت موجود تھی لیکن اسے موقع نہیں دیا گیا۔ وہ رب ذات کریم سب کو موقع دیتی ہے۔ کسی میں کھانا پکانے کی صلاحیت ہے، کسی میں راج مستری کی صلاحیت ہے، کسی میں ایکٹنگ کی، کسی میں لکھنے کی، کسی میں تقریر کرنے کی۔ کوئی ڈاکٹر بن جاتا ہے، کوئی انجینئر۔یہ سب صلاحیت کے پیمانے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے بغیر انسان کا ٹیلنٹ بے کار ہے۔ جب تک وہ نہ چاہے انسان کچھ نہیں کر سکتا۔
روشنی:ماشاء اللہ! آپ کے فن کی بدولت زندگی عزت و شہرت سے بھرپور ہے۔ تو کیا آپ نے اپنی سوانح عمری یا آپ بیتی لکھنے کی کوشش کی؟
معین اختر:جی بالکل! میں اپنی سوانح عمری لکھ رہا ہوں۔ اس کا نام میری زندگی، میری کتاب ہے۔ یہ اردو اور انگریزی دونوں میں شائع ہو گی۔ قیمت کے لحاظ سے یہ ایک سستی کتاب ہو گی تاکہ ہر کوئی اسے پڑھ سکے۔
روشنی:سنا ہے کہ آپ کا اپنا میوزک البم بھی ہے؟
معین اختر:جی ہاں! میں نے 78 گانے ریکارڈ کیے ہیں۔جنھیں میں نے خود لکھا اور موسیقی بھی خود ترتیب دی۔ یہ بھی میرا ایک شوق ہے۔
روشنی:کوئی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو؟
معین اختر:زندگی خواہشات سے بھر پور ہے۔ اور یہ خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ انسان بڑا ناشکرا اور نامکمل ہے۔ بہت کچھ ہونے کے باوجود بہت سی چیزوں کی خواہش ہمیشہ رہتی ہے۔ اگر یہ مل جاتا تو یوں ہوتا۔ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ مجھے اپنی زندگی میں کسی چیز کا کوئی افسوس اور خواہش نہیں ہے۔ جتنا ملا اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
روشنی:زندگی میں کامیابی کے لیے کیا چیز ضروری ہے؟
معین اختر:تمیز، تہذیب، ادب، لحاظ، مروت، خلوص، محبت، ایمانداری اور وقت کی پابندی ان چیزوں کو اپنا لیں۔ کیونکہ ایک دانا کا قول ہے کہ ہر کام پر ایک وقت اور ہر وقت پر ایک کام کی اہمیت اور اصول کو سمجھ جاؤ تاکہ بعد میں تمہیں میری طرح پشیمان نہ ہونا پڑے کہ کبھی میں نے وقت کو برباد کیا تھا اور آج وقت مجھے برباد کر رہا ہے۔
روشنی:پاکستان کی نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
معین اختر:میں انھیں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جذباتی فیصلے نہ کریں، جو بھی کام کریں اسے سوچ سمجھ کر کریں۔ صحیح لوگوں کا انتخاب کریں۔محنت کریں، خواب دیکھنا کبھی مت چھوڑیں، اور خواب کی تعبیر کبھی نہ کبھی ملے گی۔ جیسے علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر قائد اعظم کی انتھک محنت اور کوشش کے باعث پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ صبح کا انتظار ضرور کرنا چاہیے کہ ہر رات کے بعد سویرا ضرور ہوتا ہے، ہر تکلیف کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ ہر غم کے بعد خوشی ضرور ملتی ہے۔ ہر دھوپ کے بعد چھاؤں ضرور آتی ہے اور ہر آج کے بعد کل ضرور آتا ہے۔