دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

ساجدہ نظر (ملتان)

ہم اگر اپنے آپ پر غور کريں تو ہمارا وجود ايک جسم اور روح سے مربوط ہے۔ جسم نظر آتا ہے جب کہ روح نظر نہیں آتى۔ جسم بہت سارے اعضا پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے فرائض منصبى سرانجام ديتے ہوئے ہمارے جسم کو ايک نظم میں ڈھالتے ہيں۔ ان تمام اعضا کو جو کہ دماغ، گردے، جگر ، پھیپھڑے معدہ اور دل پر مشتمل ہیں کو اگر جسم کى اولاد تصور کر ليا جائے تو ان میں دل بڑی لاڈلی اولاد ہوتا ہے اور اس کا قریبی ساتھی نفس ہوتا ہے۔ نفس اس لاڈلی اولاد کے ذریعے اپنی ہر بات منواتا ہےمگر ذمہ دار والدین کی طرح ہمیں اپنی لاڈلی اولاد کو اس کے برے ساتھیوں سے دور رکھنا چاہیے تا کہ ہماری لاڈلی اولاد کو سیاہی کی حالت میں نہ اٹھایا جائے۔ دماغ ہمارى سارى اولاد مطلب جسمانى اعضا کو کنٹرول کرتا ہے، بعض اوقات روح سے بھى الجھ پڑتا ہے اس لیے دماغ کى ہدايات کو مان کر چلنے میں ہى بہترى ہے۔ رہى بات دل کى تو جہاں يہ بہت لاڈلا ہے وہيں پر بہت حساس اور گہرا بھى ہے۔ جب کبھى چوٹ يا دھوکا کھاتا ہے تو شور بالکل نہیں کرتا۔ اس کے ٹوٹنے کى کوئى آہٹ نہیں ہوتى مگر محسوس ہوتا ہے کہ کائنات میں زلزلہ سا آ گیا ہو۔ ايک لمحہ کے لیے پورى دنيا چيخ رہى ہو ليکن ظاہر کى آنکھ يہ سب ديکھنے سے عارى ہوتى ہے۔ ان حالات ميں دماغ بھى فشار خون کا تيز  بہاؤ دل کى طرف بھیجتاہے۔ اس کو بھى دل کنٹرول کرتا ہے۔ روح بھى بے بس ہو جاتى ہے اور نفس کو بھڑکاتى ہے کہ شور برپا کرو ليکن دل سب کو قابو میں رکھتا ہے۔ اگرچہ بہت لاڈلا ہے، بناوٹ کے لحاظ سے بہت نرم و نازک ہے، سب جذبات اورمحسوسات کى جائے پیدائش و جائے پناہ ہے۔ اگر يہ متحمل رہے تو زندگى میں سکون اور آرام آتا ہے۔ اگر اس پر حد سے زيادہ بوجھ آ جائے تو زندگى خطرے میں پڑھ جاتى ہے۔ اس لیے کسى کا دل مت دکھائیں کيونکہ اللہ دلوں میں رہتا ہے ۔

شیئر کریں
163
1