عائشہ خان (بہاول پور)
ایک خاتون سڑک کے کنارے کھڑے کسی راہگیر سے کہتی ہے معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟راہگیر نے کہا جی بالکل۔ خاتون نے کہا کہ فرض کریں کہ آپ بس میں بیٹھے ہوئے ہیں، ایک عورت بس میں سوار ہوتی ہے، اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے، کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟ راہگیر نے کہا نہیں۔ خاتون نے اپنے پاس موجود ایک کاغذ پر نظر دوڑائی اور بے ادب کے خانہ پر نشان لگاتے ہوئے دوسرا سوال کیا: اگر بس میں سوار ہونے والی عورت حاملہ ہوتی تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟ راہگیر نے کہا نہیں۔ اب کی بار خاتون نے خودغرض کے خانہ پر نشان لگاتے ہوئے اگلا سوال کیا: اور اگر وہ عورت جو بس میں سوار ہوئی وہ ایک بزرگ خاتون ہوتی تو کیا آپ اسے اپنی سیٹ دے دیتے؟ راہگیر نے کہا نہیں۔ اس کے جواب پر خاتون غصے سے کہتی ہے کہ تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو جس کو خواتین کا، بڑے اور ضعیف افراد کے آداب نہیں سکھائے گئے۔ یہ کہتے ہوئے خاتون آگے چلی گئی۔ پاس کھڑا دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ اس راہگیر سے پوچھتا ہے کہ اس عورت نے اتنی باتیں تمہیں سنا دیں، تم نے اسے کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟ راہگیرنے جواب دیا یہ خاتون اپنی آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کا کردار طے کرتی پھر رہی ہے۔ اگر یہ مجھ سے سیٹ نہ چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ میں ایک بس ڈرائیور ہوں، اس لیے کسی اور کو اپنی سیٹ نہیں دے سکتا۔