بسلامت روی: کرنل محمد خان کا سفر نامہ فرنگ

بسلامت روی 1975ء میں کیے گئے ایک سفر کا احوال ہے جو کرنل محمد خان کے روایتی مزاحیہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ کتاب کا آغاز ابتدائے احوال سفر سے قبل پاکستان میں  پیش آنے والی سرکاری رکاوٹوں سے ہوتا ہے اور سرکاری ایئر لائن کی ہوائی میزبانوں کا نہایت جامع اور دل آویز احاطہ کرتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ وہاں سے پھر لبنان کی دو روزہ سیاحت، جنیوا کا دو روزہ قیام اور بالآخر برطانیہ کی سہ ماہی مصروفیات تک جا کر دم لیتا ہے تاہم برطانیہ کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ پیرس، فرینکفرٹ، استنبول اور تہران کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کاانتساب کچھ اس طرح سے ہے

پیکر ایثار و وفا۔ بخت ۔کے نام


کرنل محمد خان کتاب کے مقدمہ میں ایک جگہ رقم طراز ہیں  کہ پاکستان سے اُڑ کر انگلستان جانا اور راہ میں آتے جاتے دو چار ملک دیکھ لینا کوئی ایسی کشور کشائی کی مہم نہیں کہ اس پر کتاب لکھ دی جائے۔ دوسرے ہر سال سیکڑوں سوداگر، سمگلر اور سرکاری گماشتے ولایت جاتے ہیں اور واپسی پر کاروں اور ٹیلی ویژنوں کے علاوہ ایک سفر نامے کا مسودہ بھی ساتھ لے آتے ہیں، چنانچہ آج کل ہر دوسرا یا تیسرا قاری یا تو خود ایک سفر نامے کا مصنف ہے اور یا مصنف سے زیادہ دنیا دیکھ چکا ہے۔ نتیجتاً اب سفر ناموں میں ان چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے مبالغوں اور دروغوں کی گنجائش نہیں جن کا علم صرف مصنف اور خدا کو ہوتا تھا۔ اب آپ انگلستان کے باب میں ذرا سی رنگ آمیزی کریں تو تنہا میرپور سینکڑوں چشم دید گواہ پیش کر دے گا کہ مدعی کا بیان ضرورت سے زیادہ چست ہے یعنی وہ رنگ جسے شوخ سرخ دکھایا گیا ہے دراصل گدلا بھورا ہے۔ اب گواہوں کا ارشاد بجا مگر گدلے بھورے رنگ کی سپاٹ سچائی سے زیادہ پھیکی جنس بھی تو کوئی نہیں۔

جو بات ٹیکنی کلر میں ہے وہ بلیک اینڈ وائٹ میں کہاں؟ وہ داستان کیا جسے زیب سے محروم کیا جائے؟ وہ دلہن کیا جس نے سرخ جوڑا نہ پہنا ہو؟لیکن خوش قسمتی سے یہ کتاب سفر نامے سے زیادہ آدمی نامہ ہے، اس میں مقامات کا ذکر کم اور شخصیات کا زیادہ ہے اور شخصیات کا رنگ وہی ہوتا ہے جو مصنف کو نظر آئے نہ کہ جو میر پوریوں کو دکھائی دے۔ پھر شخصیات میں بھی اکثریت صنف لطیف کی ہے اور صنف لطیف میں تو یقیناً اکثریت حسینوں کی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ پیارے قاری، ایسا اس لیے ہے کہ حسینوں سے ہمیں پیار ہے حسن کسی بشر میں ہو یا کسی منظر میں، کسی صورت میں ہو یا کسی صورت میں، کسی رنگ میں ہو یا کسی آہنگ میں، حسن ہر روپ میں ہمارے دل میں بلا روک اتر جاتا ہے۔
لیکن خفقان مرزا کی طرح آپ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا سارے سفر میں تمہیں حسین ہی ملے؟ کیا کسی کج رو سے مڈھ بھیڑ نہ ہوئی؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ بے شک ایسا نہیں ہو سکتا، ہمیں حسینوں کے ساتھ ساتھ کئی ناگفتہ بہ خفقانی بھی ملے… اور ان میں سے چند ایک ہماری مجلس میں گھس بھی آئے… لیکن بالعموم ہمارے حلقہ سخن میں غلبہ حسینوں ہی کا رہا اور  وہ اس لیے کہ ہم نے چند گلہائے ترچن کر یادوں کا باقی کوڑا کرکٹ کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اس گل چینی میں ہم نے حسن کو معیار ٹھہرا کرکوئی ایسی حرکت نہیں کی جس کے لیے معذرت کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی صاحب حسن سے الرجک ہوں تو ہم ان سے دوستانہ اختلاف رکھنے پر مجبور ہیں اور شاید ایسوں کے ساتھ دوستی بھی زیادہ دیر نہ چل سکے۔کتاب لکھنے سے پہلے ہمیں بار ہا اپنے سفر کی ہلکی پھلکی روداد اپنے بے تکلف دوستوں کی مجلس میں بیان کرنے کا اتفاق ہوا، پھر ایک دن یہی رو داد تقریباً انہی الفاظ میں لکھنا شروع کردی۔ بادیگر الفاظ یہ کتاب ہم نے دوستوں کی خاطر لکھی ہے۔

اگر آپ بھی اسے دوستانہ نگاہ سے دیکھیں تو ممکن ہے کچھ محظوظ ہوں لیکن اگر آپ نے اسے ناقدانہ ہی دیکھنا ہے۔ اور آپ کو اس طرح دیکھنے کا پورا حق ہے۔ تو ہمیں خوف ہے کہ آپ شاید محظوظ تو ہوں یا نہ ہوں، آپ اپنا تنقیدی طیش ایک غلط کتاب پر ضائع کر دیں گے اور بے سبب ضائع کریں گے کیونکہ اس کتاب کو کسی توانائی یا یکتائی کا دعویٰ نہیں یہ محض حلقہ یاراں میں ایک یار کی داستاں طرازی ہے اور اس خامی کے لیے ہم اہل دانش سے پیشگی معذرت خواہ ہیں۔ ویسے زندگی میں اہل دانش سے ہمارا اجتناب کلی بھی نہیں رہا،کبھی ہم مکتب جانکلے، کبھی وہ میخانے آ بیٹھے، سو ہو سکتا ہے کہ بے ارادہ کوئی حکمت کی بات ہمارے قلم سے بھی نکل گئی ہو۔ اس پختگی کے لیے ہم اہل جنوں سے پیشگی شرم سار ہیں۔
کتاب کے غیر ملکی کرداروں سے ہماری باتیں زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوئیں، لیکن کتاب اردو میں ہے لہٰذا ان کے منہ میں بھی اردو زبان رکھنا پڑی یعنی ہماری اپنی زبان، ان حالات میں اگر انہیں بھی کہیں میرو غالب کے حوالے سے بات کرتا پائیں تو از راہ کرم بہت زیادہ چراغ پا نہ ہوں، آخر آپ بھی حسب ضرورت شیکسپیئر اور ورڈ زورتھ پر دست درازی کر لیتے ہیں۔ ویسے ان لوگوں کی انگریزی ہماری اردو سے کم بلیغ نہ تھی۔ اس کے برعکس بعض مقامات پر انگریزی الفاظ یا جملوں کو دہرائے بغیر چارہ نہ تھا۔ امید ہے یہ زیادتی بھی آپ برداشت کریں گے۔اکثر کرداروں کے نام اصلی ہیں لیکن چند ایک کو مصلحتاً فرضی نام دیے گئے ہیں اس عمل سے آپ کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن کرداروں کا بھلا ہو جائے گا، فرنگی ناموں میں تو یوں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، ٹام نہ ہوا، ٹونی ہوا، روبی نہ ہوئی، روزی ہوئی۔
بقول مصنف سفر میں مسافر کو لا محالہ نشیب و فراز پیش آتے رہتے ہیں، لیکن خدا جانے یہ اتفاق تھا یا قضا و قدرت کا منصوبہ کہ ہمیں جملہ نشیب سفر کی تیاری یعنی پاکستان ہی میں پیش آ گئے اور اس تسلسل کے ساتھ کہ پہلے تین باب ان کی نذر کرنا پڑے لیکن جونہی ہمارے طیارے نے کراچی سے پرواز کی، ہمارے فرازوں کی ابتدا ہو گئی اور پھر چھ طویل بابوں میں ہمیں شاذ ہی کوئی نشیب نظر آیا۔ بے شک بابا باہو کا فرمودہ ہے کہ

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں تھیں بھارے ہُو


لیکن شاید بابا جی کے زمانے میں پردیس میں آغوش کھولے، شیریں دہن، شعلہ بدن میزبان بھی نہیں ہوتے تھے ورنہ آج کے پردیسی سے پوچھیں تو بابا باہو سے ہزار معذرت کے بعد گنگنانے لگے گا

شالا مسافر ہر کوئی تھیوے لیندا پھرے ہلارے ہُو

شیئر کریں
99
2