اشتیاق احمد
گزشتہ سے پیوستہ: اُف میرے مالک!یہ تومیرے ڈرائنگ روم میں بھی موجودہے۔
کک۔ ۔ ۔ کیا۔۔۔
انہوں نے فوراًاس سمت میں دیکھاجس طرف خان جابر دیکھ رہے تھے۔ میز پر ایک عدد چیونٹی موجودتھی۔
آپ فوراً اس طرف آجائیے… میں اس پر فائر کرتا ہوں۔ انسپکٹر جمشید نے چلا کر کہا۔ وہ یک دم ایک طرف ہٹ گئے۔انسپکٹرجمشیدنے چیونٹی کانشانہ لیا اور فائرکردیا۔میزمیں سوراخ ہوگیا۔ لیکن چیونٹی تھوڑی دورنظرآئی۔ انہوں نے دوسرافائرکیا۔ایک سوراخ اورہوگیا، لیکن چیونٹی اب ایک اورجگہ نظرآرہی تھی۔
آپ کانشانہ پختہ نہیں ہے جناب!میں اپنے نشانچی کوبلاتاہوں۔خان جابرنے طنزیہ لہجے میں کہا۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں۔انسپکٹرجمشیدمسکرائے۔خان جابرنے گھنٹی بجائی۔ اسی وقت ایک ملازم اندرداخل ہوا۔
گن مین کوبلاؤ…جلدی کرو۔انہوں نے چلاکرکہا۔
اوکے سر!ملازم گھبراگیا۔وہ باہرکی طرف دوڑگیااورپھرایک لمبے قد کا آدمی اندر داخل ہوا،اس کے ہاتھ میں کلاشن کوف تھی۔
باگڑو!اس چیونٹی کودیکھ رہے ہو؟
بالکل دیکھ رہاہوں سر۔اس نے کہا۔
اسے نشانہ بناناہے۔یہ انسپکٹرجمشیدہیں۔تم نے ان کانام ضرورسناہوگا۔
کیوں نہیں جناب!میں انہیں بہت اچھی طرح جانتاہوں۔باگڑوبولا۔
انہوں نے اس چیونٹی پردوفائرکیے ہیں، لیکن اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے۔ اب میں نے تمھیں بلایاہے،کیونکہ تم بہترین نشانے بازہو۔
اوہ!یہ بات ہے۔اس نے کھوئے کھوئے اندازمیں کہا۔
ہاں!یہی بات ہے۔وہ بولے۔
تب پھرمیں اس چیونٹی کونشانہ نہیں بناؤں گاسر
کیوں؟یہ کیابات ہوئی۔
اگریہ انسپکٹرجمشیدصاحب کی فائرنگ کے بعدبھی زندہ ہے توباگڑوکی فائرنگ اس کا بال بھی بیکانہیں کرسکتی۔باگڑونے کہا۔
یہ تم کیاکہہ رہے ہو؟
میں بالکل ٹھیک کہہ رہاہوں جناب! میں انسپکٹرجمشیدکے مقابلے کانشانے بازنہیں ہو سکتا۔ یہ تواس سلسلے میں بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔یہ چیونٹی اگران کی فائرنگ سے بچ گئی ہے تواس میں ان کے نشانے کاکوئی قصورنہیں ہے۔یہ کوئی اورچکرہے۔
تم فائرتوکرو۔
نہیں جناب!کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اگرتم نے میراحکم نہ ماناتومیں تمہیں ملازمت سے نکال دوں گا۔
بھئی!کیوں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھوتے ہو؟ چیونٹی پر فائر کرو۔ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
نہیں سر! میں نہیں کروں گا۔میں جانتاہوں میں آپ کے پاسنگ بھی نہیں۔
لیکن بھئی! یہ تمہاری ملازمت کاسوال ہے۔
کوئی بات نہیں سر! ملازمتیں اور مل جائیں گی، لیکن میں نشانہ بازی کے ایک اتنے بڑے ماہرکے بعداپنے نشانے کونہیں آزماسکتا۔
یہ توعجیب بات ہوگئی۔ خان جابرنے حیرت زدہ اندازمیں کہا۔
اب آپ کیاکہتے ہیں؟
یہ گن مین آج سے فارغ ہے۔
میں چیونٹی کے بارے میں پوچھ رہاہوں۔
گویاآپ کواس بات کی کوئی فکرنہیں کہ آپ کی وجہ سے کوئی آدمی ملازمت سے فارغ کردیاجائے گا۔
مجھے احساس ہے اورمیں انہیں ملازمت دلواؤں گا۔
اس چیونٹی کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟
اس چیونٹی سے میراکوئی تعلق نہیں،میں نہیں جانتا،یہ کیابلاہے۔کیایہ بات حیرت کی نہیں کہ ایک چیونٹی پورے گھرکوکس طرح آگ لگاسکتی ہے۔ کس طرح تباہ کرسکتی ہے اورکاروں کوکس طرح بے کارکرسکتی ہے؟
ہاں!یہ بات حیرت کی ہے،لیکن ہمارے نزدیک نہیں۔
کیامطلب؟
یہ دورسائنس کاہے۔یہ ضرورسائنس کی کوئی ایجادہے،لیکن اس کااستعمال درست نہیں کیاجارہا۔اس کاموجدضرورشیطانی ذہن کامالک ہے اورمیں اس شیطانی ذہن کے خلاف آج اور اس وقت جنگ کااعلان کررہاہوں۔وہ آپ ہوں یاکوئی بھی ہو۔اس چیونٹی کے ذریعے وہ ضرورمیرااعلان سن رہاہے۔
پتانہیں آپ کیاکہہ رہے ہیں۔
آپ کوبہت جلد احساس ہوجائے گاکہ میں کیاکہہ رہاہوں؟
کیامطلب؟
آج آپ میری بات نہیں سمجھ رہے۔بہت جلدسمجھ جائیں گے۔اب بھی وقت ہے آپ اپنی اورسیٹھ شوکت کی دشمنی کی بنیادبتادیں۔
یہ بنیادآپ اسی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔
آپ اس چیونٹی کے بارے میں ہی بتادیں۔
بتاچکاہوں…میرااس سے کوئی تعلق نہیں۔
تب پھراس نے آپ کی کوٹھی کوکیوں نقصان نہیں پہنچایا؟
مجھے کیامعلوم؟میں کیاکہہ سکتاہوں؟انہوں نے بھناکرکہا۔
آؤ بھئی! چلیں۔ یہ حضرت کوئی تعاون کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ انہوں نے برا سا منہ بنایا۔عین اس وقت ڈرائنگ روم کی میزجلنے لگی۔
اُف مالک!یہاں بھی وہی کچھ ہونے والاہے آپ فوراً گھرکے افراد کوباہرنکال دیں۔ فائربرگیڈکوفون کردیں۔انسپکٹرجمشیدنے چلاکرکہا۔
وہ دوڑکرباہرنکل آئے۔فائربریگیڈکوفون کیاگیا۔ابھی چندمنٹ ہوئے ہوں گے کہ آگ بھڑکتی دکھائی دینے لگی۔لوگوں نے بالٹیوں کے ذریعے پانی پھینکناشروع کیا۔لیکن آگ اوربھی بھڑکتی چلی گئی اورجب فائربریگیڈوالے آئے توآگ کے شعلے بلندہورہے تھے۔ فائر بریگیڈ والوں نے اپنی کوشش شروع کردی، لیکن ان کی ایک نہ چلی۔عمارت جل کرراکھ بن گئی۔
خان جابرپھٹی پھٹی آنکھوں سے اس منظرکودیکھتے رہے۔اچانک بولے: اور یہ چیونٹی ریموٹ کنٹرول ہے۔شایداسے بہت دورسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔اب آپ کیاکہتے ہو۔کیااس چیونٹی سے میراکوئی تعلق ہوسکتاہے؟
ہاں ایساہوسکتاہے۔
اس کامطلب ہے میں نے اپنی کوٹھی خودجلاڈالی۔
آپ جیسے دولت مندکے لیے اس کوٹھی کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ خود کو شک سے بچانے کے لیے ایساکرگزرناکچھ بھی مشکل نہیں۔
آپ حدسے بڑھ رہے ہیں۔خان جابرنے بھناکرکہا۔
اچھی بات ہے۔ہم جارہے ہیں۔اب ہم آپ کے معاملے میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کریں گے،جب تک آپ کے خلاف ثبوت نہ تلاش کر لیں۔
میں اس دن کاانتظارکروں گا۔ انہوں نے ہنس کر کہا۔ وہ وہاں سے سیدھے خان رحمان کے ہاں پہنچے۔سب لوگ وہاں موجودتھے۔پروفیسرداؤد بھی تھے۔
آپ نے چیونٹی کے بارے میں اب تک کیااندازہ لگایاہے؟
وہ سائنس کی ایک ایجادہے۔کوئی عام چیونٹی نہیں اور یہ چیونٹی ریموٹ کنٹرول ہے۔ شاید اسے بہت دورسے کنٹرول کیاجاسکتاہے۔
ہوں۔۔۔! وہ بولے۔
اس کے بارے میں مکمل باتیں میں صرف اس صورت میں بتا سکتا ہوں جب تم ایک عدد چیونٹی پکڑ کر مجھے دے دو۔پروفیسرداؤدنے مسکراکرکہا۔
آپ پکڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ ہم لوگ تواسے چھو بھی نہیں سکتے۔ اکرام نے اس پر جوتا رکھ کر دباؤ ڈال دیاتھا۔ وہ اس کے ہاتھ میں سے نکل گئی۔ اب وہ بے چارہ ہسپتال میں موجودہے اورسناؤں….. خان جابر کی کوٹھی بھی جل کرراکھ ہو چکی ہے۔
کیا!!! پروفیسرداؤدبہت زورسے اچھلے،ان کی آنکھیں حیرت سے پھل گئیں۔
کیوں کیابات ہے…کیایہ خبرآپ کے لیے بہت زیادہ چونکادینے والی ہے؟
خبرنہیں…نام…..خان جابرکانام۔
خیریت…آپ کواس کانام کس طرح معلوم؟
وہ بہت خطرناک آدمی ہے…ایک بارمیرااس سے جھگڑاہواتھا۔بہت دنوں تک اس نے مجھے پریشان کیاتھا۔
آپ نے اس وقت ہمیں کیوں نہ بتایا؟ہم اس کاناطقہ بندکردیتے۔
بتاتاکیسے…تم لوگ کسی لمبی مہم پرنکلے ہوئے تھے۔
لیکن پروفیسرانکل! لمبی مہمات پر تو ہمیشہ آپ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
اس مرتبہ میں ساتھ نہیں تھا۔
خیر…آپ فکرنہ کریں۔ہم اس سے سمجھ لیں گے۔
نہیں! اب اس کی ضرورت نہیں…وہ بات تواب بہت پرانی ہوگئی۔
توکیاہوا…یادتوہے۔
نہیں نہیں…میں انتقامی جذبہ اپنے اندراس حدتک نہیں رکھتا۔
خیرتومیں بتارہاتھاکہ اس کامکان بھی سیٹھ شوکت کی کوٹھی کی طرح جل کرراکھ ہوگیا۔ پروفیسرصاحب اس چیونٹی کاکچھ کریں۔ورنہ شہرمیں ہرطرف خوف ہی خوف دوڑجائے گا۔
میں تواس کے بارے میں اس وقت کچھ کرسکتاہوں، جب ایک عددچیونٹی میرے پاس موجودہو۔
خیر…ہم ایساکرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
ہائیں خان رحمان! تمہارے آتش دان پر کیا بیٹھا ہے۔ انسپکٹرجمشید زور سے اُچھلے۔
کک…کیا….بیٹھاہے؟خان رحمان نے گھبراکرکہا۔
چچ….چچ….چیونٹی۔
کک….کیا…. نہیں!خان رحمان چلائے۔ان کارنگ سفیدپڑگیا۔
ڈرگئے خان رحمان۔ایک چیونٹی سے یاگھرکی تباہی سے؟
نہ میں چیونٹی سے ڈراہوں،نہ اس خیال سے کہ اب میراگھرتباہ ہوجائے گا۔بلکہ میں ڈراس بات سے رہاہوں کہ ہمارے شہرمیں شروع کیاہوگیا۔یہ چیونٹی کس کس کاگھرتباہ کرے گی۔
اب موقع بہت اچھا ہے…پروفیسرصاحب! آپ فوراً اس کا معائنہ کر لیں۔
میں معائنہ شروع کرچکاہوں جمشید! تم اسے کچھ نہیں کہوگے۔ ہٹ جاؤ سب لوگ ایک طرف۔ پروفیسر داؤد نے جلدی جلدی کہا۔ انہوں نے خوردبین سے چیونٹی کاجائزہ لینا شروع کیا۔چیونٹی بالکل ساکت بیٹھی تھی۔
جمشید!ذرااسے کسی کی مددسے ہلاؤجلاؤ۔
جی بہتر!انہوں نے کہا۔
کک…کہیں یہ آپ کوکوئی نقصان نہ پہنچائے۔
دیکھاجائے گا۔اب اس کاجائزہ لینے کاموقع توملا،پھرپتانہیں مل سکے یا نہیں۔ انھوں نے ایک لمبا تنکا لیا اور اس کی مدد سے چیونٹی کو ہلانا چاہا۔ لیکن تنکا مڑ گیا چیونٹی اپنی جگہ سے نہ سرکی۔
اس کے لیے تو کسی لوہے کی سلاخ کی ضرورت ہو گی۔ انسپکٹر جمشید بولے۔
نہیں جمشید! تم ایسانہیں کروگے۔یہ انتہائی خوفناک ہے اس میں سے کچھ لہریں،کچھ شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔بہت جلدخان رحمان کاگھران لہروں اور شعاعوں کی لپیٹ میں ہو گا۔ اس چیونٹی میں بہت حساس مشینری فٹ کی گئی ہے اور یہ ریموٹ کنٹرول بھی ہے۔اس کوکنٹرول کرنے والابہت دورکہیں محفوظ بیٹھا ہے۔ جمشید!جب تک تم اس تک نہیں پہنچ جاؤگے،اس چیونٹی کی تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔وہ…وہ دیکھو…!!خان رحمان کاگھرجلنے لگا ہے۔ ارے باپ رے…! ان سب کوباہرنکلناپڑا۔ان کے چہرے ستے ہوئے تھے۔
اس طرح توشہرکے اَن گنت مکانات یہ چیونٹی جلادے گی اورہم کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔
آپ دیکھ رہے ہیں۔ہم کس قدربے بس ہیں۔
لیکن جمشید! ہم اس چیونٹی پربمباری توکرہی سکتے ہیں۔خان رحمان بولے۔
تمہاراکیاخیال ہے خان رحمان!کیا بم اس چیونٹی کاکچھ بگاڑسکے گا۔ شاید نہیں۔انسپکٹرجمشیدبولے۔
آخرکیوں نہیں۔
یہ چیونٹی خاص قسم کے مادے سے بنائی گئی ہے۔اس مادے کوبم بھی تباہ نہیں کرسکتا۔
ہوں!…تب پھرپروفیسرصاحب!اب آپ کاکام شروع ہوتاہے۔
میں اپنے ساتھیوں کوساتھ ملاکراس چیونٹی پرکام کروں گا۔لیکن جمشید!اس کا واحدحل یہی ہے کہ تم اس شخص تک پہنچ جاؤ۔
اس تک ہم بغیرکسی سراغ کے کس طرح پہنچ سکتے ہیں۔پہلے ہم سراغ لگائیں گے پھر اس تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
تب پھرتم سراغ لگاؤ…ہم چیونٹی… ارے…!! اسی وقت خان رحمان کے گھرسے دھواں اٹھنے لگا اور پھر شعلے بلند ہوگئے۔
٭٭٭٭٭
دوسرے دن کے اخبارات نے شہر بھر میں خوف کی فضا دوڑا دی۔ پورے شہرپرسناٹے کاعالم طاری ہوگیا۔ہرکسی کے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ اگرچیونٹی اس کے گھرمیں گھس آئی تو کیا ہوگا۔ ابھی تک یہ بات بھی معلوم نہیں کی جا سکی تھی کہ چیونٹی کوکنٹرول کرنے والے کا مقصدکیاہے۔وہ کیوں شہرمیں عمارات کودھڑادھڑجلارہاہے۔اسی صبح آئی جی صاحب کاپیغام انھیں ملا۔دفترمیں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی تھی۔اس میں انھیں بھی شرکت کرنا تھی۔ دوپہر کے وقت تمام آفیسروہاں موجودتھے۔آخرآئی جی صاحب کے آنے پرکارروائی کا آغاز ہوا۔
شہرمیں اس وقت تک پندرہ بڑی عمارات کواس چیونٹی کے ذریعے آگ لگائی جاچکی ہے۔ ابھی تک مقصدبھی سامنے نہیں آسکاکہ وہ نامعلوم شخص ایساکیوں کر رہاہے۔اس طرح توساراشہرجل کرراکھ ہوجائے گا۔نہ اس کے ہاتھ کچھ آئے گا، نہ ہمارے،آپ سب باری باری مشورہ دیں کہ ہمیں کیاکرناچاہیے؟یہ کہہ کرآئی جی صاحب خاموش ہوگئے۔
ہمیں اس چیونٹی کوبم کے ذریعے ہلاک کردیناچاہیے۔ایک آفیسربولا۔
میں یہ مشورہ نہیں دوں گا۔پروفیسرداؤدنے کہا۔
جی وہ کیوں پروفیسرصاحب؟آئی جی صاحب نے فوراًکہا۔
ابھی تک چیونٹی کسی کھلے میدان میں تونظرآئی نہیں،بم کہاں ماراجائے گا؟کیاکسی مکان کے اندراس پربم ماراجائے گا۔
جہاں اتنے مکانات تباہ ہورہے ہیں وہاں ایک اس چیونٹی کوختم کرنے کے لیے بھی سہی۔
لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ چیونٹی ختم ہو جائے گی۔ پروفیسر داؤد بولے۔
ختم نہ ہوگی توکیاہوگا۔تجربہ ہوجائے گا۔
ہوں!ٹھیک ہے۔ایک تجویزتویہ طے ہوئی کہ اب جہاں بھی چیونٹی نظر آئے گی، اس کوبم کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
چلیے ٹھیک ہے۔اوردوسری تجویز۔ڈی آئی جی صاحب نے کہا۔
انسپکٹرجمشیدچیونٹی کے موجدتک پہنچنے کی جلدازجلدکوشش کریں گے۔یہ پہلاموقع ہے شایدکہ یہ اب تک مجرم کونہیں پکڑسکے۔جب کہ اس سے پہلے یہ یا تو صرف چندگھنٹے میں مجرم تک پہنچ جاتے ہیں یازیادہ سے زیادہ ایک دو دن میں۔
اس کی وجہ ہے سر! اس کیس میں کسی انسان کاکوئی عمل دخل اب تک شامل نہیں ہوا۔ بس ایک عددچیونٹی نظرآئی ہے۔اب نہ توہم اس کے قدموں کے نشانات لے سکتے ہیں، نہ انگلیوں کے۔ نہ وہ کوئی اور سراغ چھوڑتی ہے۔ جس طرح کہ مجرم عام طورپرچھوڑجاتے ہیں۔انسپکٹرجمشیدنے وضاحت کی۔
میں تمہیں الزام نہیں دے رہا جمشید! آئی جی صاحب مسکرادیے۔
شکریہ سر! ہم دن رات ایک کردیں گے، آپ فکرنہ کریں۔ اس سلسلے میں ہم پروفیسر صاحب سے مددکی درخواست کریں گے۔میں یہ بات جان چکا ہوں۔ ہم ان کی مددکے بغیراس کیس میں کوئی کامیابی ہرگزہرگزحاصل نہیں کرسکتے۔
ہوں ٹھیک ہے۔تم پوری طرح آزادہو۔جوچاہے کرو۔آئی جی صاحب نے کہا۔
عین اس وقت فون کی گھنٹی بجی۔آئی جی صاحب نے فوراًریسیورا ٹھایااورپھر پروفیسر داؤدکی طرف بڑھادیا۔انہوں نے دوسری طرف کی بات سنتے ہی چیخ کرکہا: نہیں ۔۔۔! اورپھران کی آنکھیں حیرت اورخوف سے پھیل گئیں۔ (باقی آئندہ)