ساجدہ نظر (ملتان)

اس میں کوئى شک نہیں کہ خدا اور محبت کا آپس ميں گہرا ربط ہے۔ خالق  کائنات نے انسان کى تخلیق کو احسن اور عمدہ و اعلٰی قرار ديا ہے اور اس کو اپنا نائب اور اشرف المخلوقات جيسے مناصب پر فائز کر کے  انسان سے اپنی محبت کا اظہار کيا ہے۔ انسان کی پیدائش پرذرا غور کريں کہ نومولود بچہ محض گوشت پوست کا لوتھڑا ہوتا ہے، وہ خدائے اعلیٰ و برتر کى ذات اقدس ہے جو ماں کو ممتا جيسے جذبہ سے سرفراز کرتی ہے۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو راتوں کو جاگ جاگ کر اس کمزور و ناتواں بچے کو بڑى محبت سے پال پوس کر بڑا کرتی  ہے۔  جب انسان دنيا میں آتا ہے تو ایک خاندانى نظام اور ڈھانچہ یعنی والدین، دادا، دادى ،نانا،نانى،خالہ ،ماموں ،چچا ،پھپھو جيسے خوب صورت محبت کرنے والے رشتے اس کا خير مقدم کرتے ہیں،  اس کو پيار  کرتے ہیں تو يہ سب خدا کی مرہون منت ہے۔

اگر خدا کى عطا کردہ نعمتوں پر غورکیا جائے تو احساس ہو گا کہ خدا اور محبت دونوں باہم مربوط ہیں۔ ان دونوں میں ایک يگانگت يہ بھى ہے کہ نہ خدا نظر آتا ہے اور نہ محبت جب کہ يہ دونوں ہر جگہ اور ہر تعلق میں پائے جاتے ہیں۔ خدا اور محبت میں کبھى کبھی الجھاؤ اور ٹکراؤ بھى نظر آتا جب ناقص العقل انسان بچپن کى واديوں سے نکل کر جوانى کى شاہراہوں پر گامزن ہوتا ہے تو بہت سے شکوے اس کے دامن گير ہوتے ہیں، وہ سوچتا ہےکہ اگر خدا کو اپنے بندوں سے ستر ماؤں جتنى محبت ہے تووہ  بچوں کو ظلم کے صحرا ميں بھٹکتے اور آگ و خون کے شعلوں میں جلتے کیسے ديکھ ليتا ہے؟کيوں بھوکے ننگے بچے اس کو نظر نہیں آتے ؟

زندگى میں کئى موڑ ايسے آتے ہیں جب محبت مبہوت رہ جاتى ہے. کسى کو برسوں کى عبادت کے باوجود مقام و مرتبہ نہیں ملتا تو کسى کو بن مانگے نواز ديا جاتا ہے۔ کبھى تو نافرمان اور سرکش کو بھی اتنا نواز دیا جاتا ہے کہ ايمان متزلزل ہونے لگتا ہے اور محدود عقل رکھنے والا انسان شکوہ کناں نظر آتا ہے۔ ان تمام تضادات کا شکار انسانى ذہن اللہ کى نعمتوں اور رحمتوں کا شکر ادا کرنے کى بجائے اپنى کوتاہيوں اور غلط فيصلوں کا الزام خدا پر دھرتا نظر آتا ہے اور اپنى ناکاميوں کے نتيجے میں پيدا ہونے والے حالات کى تمام تر ذمہ دارى خدا يا تقدير پر ڈال ديتا ہے۔  

انسان کو اپنے ارتقا کو پانے کے لیے آسمان کى بلنديوں کى بجائے اپنى روح کى گہرائيوں میں اترنے کى ضرورت ہے۔ اسے اپنے اقربا سے محبت و حسن سلوک کرنے کے لیے خدا اور مذہب سے اجازت کى ضرورت نہیں۔ وہ اپنے اجتماعى مسائل،  دوستى، فلسفے، جديد علوم و فنوں اور ديگر روزمرہ کے مسائل باہمى مشاورت سے حل کر سکتا ہے۔

شیئر کریں
172