غلام اصغر خان (مظفرگڑھ)
مہلت زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک انوکھا واقعہ قارئین روشنی میگزین کی خدمت میں پیش ہے ۔ ایک بادشاہ کا ایک باغ تھا ۔ اس باغ کے کئی حصے تھے اور ہر حصے میں پھل لگے ہوئے تھے۔ ایک دن باد شاہ نے اپنے ایک ملازم کو بلایا اور کہا کہ اس باغ سے پھل توڑ کر لاؤ۔کوشش کرنا کہ تم اچھے پھل توڑ کر لانا ، میں تم سے خوش ہوں گا اور انعام بھی دوں گا ،لیکن ایک شرط ہے کہ جس حصے سے تم ایک مرتبہ گزر جاؤاس میں دوبارہ جانے کی اجازت نہ ہو گی ۔
اس ملازم نے انعام کے لالچ سے ٹوکری ہاتھ میں لی اور باغ میں داخل ہوگیا ۔اس نے سوچا کہ آج اچھے اچھے پھل لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور انعام لوں گا ۔اسے پہلے حصے میں اچھے پھل مل گئے۔دل میں آیا کہ یہاں سے توڑ لوں، پھر سوچا کہ اگلے حصے میں جا کر توڑوں گا ،ہو سکتا ہے کہ وہاں اس سے زیادہ اچھے پھل ہوں ۔جب وہاں جا کردیکھا تو سب سے بہتر پھل مل گئے، دل میں آیا کہ یہاں سے توڑ لوں لیکن پھر سوچا کہ اگلے حصے میں سے توڑوں گا ، ہو سکتا ہے کہ اس سے زیادہ اچھے پھل موجود ہوں۔جب وہ آخری حصے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں درختوں پر پھل نہیں لگے ہوئے۔وہ پچھتانے لگ گیا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا تو میں پہلے حصوں میں سے پھل توڑ لیتا اورآج میری ٹوکری خالی نہ ہوتی ، بادشاہ کی شرط کے مطابق تو اب میں واپس ان حصوں میں بھی نہیں جا سکتا ۔ پیارے بچو! انسان کی زندگی کی مثال بھی ایسے ہی ہے۔ ہمارا ہر دن زندگی کے باغ کا حصہ ہے ۔ ہم اس میں سے پھلوں کو توڑ سکتے ہیں یعنی نیکیاں کما سکتے ہیں لیکن ہم یہ سوچتے ہیں کہ آج نہیں تو کل نیکی کر لوں گا اور اسی طرح اس باغ کی مانند آج کل کرتے کرتے ہمیں موت آ جاتی ہے ۔