قرۃ العین صدیقی
مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے ۔ تب جب کبھی کوئی کتاب یا کاپی خریدنے کے لیے کتابستان یعنی بک سنٹرز کا رخ کرتے تو دکان کے باہر ہی لکڑی کا ایک سٹینڈ کھڑا ہوتا تھا۔ جس میں دیدہ زیب اور رنگارنگ سر ورق سے آراستہ ٹارزن، عمرو عیار ، کوہ قاف کے جنوں اور پریوں کی کہانیاں موجود ہوتی تھیں ۔ اپنے جیب خرچ سے بچائے ہوئے پیسوں سے کوئی نہ کوئی ایسی کہانی جس کا سر ورق زیادہ دل کش معلوم ہوتا اور ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا، وہ خرید لیا کرتے تھے ۔ اور پھر ہم میں سے اکثر اپنی نصابی کتب میں یہ کہانیاں چھپا کر پڑھتے تھے۔ شاید ایسا اس لیے تھا کہ ہمیں کہا جاتا کہ سکول کا سبق پڑھنا زیادہ ضروری ہے۔ تب ہی کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے اور ڈانٹ نہ پڑ جائے تو نصابی کتب میں چھپا کر یا فارغ اوقات میں یہ کہانیاں پڑھتے تھے۔
کچھ گھرانوں میں اخبار جہاں بھی آیا کرتا تھا اور کہانیاں پڑھنے کے شوقین بچے اس کے سلسلے بچوں کی دنیا میں موجود کہانیاں بہت شوق سے پڑھتے تھے ۔ جن گھرانوں میں کوئی بڑے بہن بھائی ادبی کتب پڑھنے کے شوقین ہوتے تو مانو ان کے بچوں کی تو روز عید ہوتی کہ بنا خریدے خاموشی سے کتاب الماری سے نکالی ، پڑھی اور واپس رکھ دی۔ میں بھی انہی بچوں میں سے ایک تھی جو برآمدے کے ایک کونے میں دھری اپنے ماموں کی لکڑی کی الماری سے چپ چاپ کوئی ادبی کتاب یا کہانی نکالتی، اسے پڑھتی اور واپس رکھ دیتی تھی۔ تب بچوں کی املا اور تلفظ اردو کی کہانیاں پڑھنے کی وجہ سے کافی بہتر ہوا کرتا تھا ۔
رفتہ رفتہ کتب بینی کا شوق کم ہونے لگا اور اس کی جگہ وڈیو گیمز نے لے لی۔ والدین اور دوست احباب بچوں کو تحفے میں کتاب کی جگہ وڈیو گیمز گفٹ کرنے لگے۔ بچے یہ قیمتی تحفہ لے کر بہت خوش ہوتے اور ہمہ وقت وڈیو گیمز کھیلنے میں مگن رہتے۔ پھر کمپیوٹر اور موبائل عام ہونے لگے تو یہ گیمز ان میں کھیلی جانے لگیں ۔ آج ہزاروں قسم کی گیمز ہیں جنہیں کھیل کر نہ صرف بچے نصابی کتب سے دور ہو چکے ہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحتیں بھی مفقود ہوتی جا رہی ہیں۔ غیر نصابی ادبی کتب تو آج کے بچے خریدتے ہی نہیں ۔ آج اگر آپ کسی کمرہ جماعت میں جا کر بچوں سے ٹارزن ، عمرو عیار یا کسی بھی کہانی کا ذکر کریں یا پوچھیں تو وہ ان کرداروں سے بھی لا علم نظر آئیں گے ۔ سکولوں کی سطح پر کہیں کہیں لائبریریاں تو ہیں مگر کتب بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں ۔ کہیں لائبریرین اور سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے تو کہیں اس لیے کہ کتاب خراب نہ ہو جائے۔
ایسے وقت میں جب ایک طرف تو کچھ بچے صرف اور صرف نمبروں کی دوڑ میں لگے ہیں اور بنا سمجھے کتابوں کو رٹہ لگائے جا رہے تھے ۔ اور دوسری طرف قوم کے یہ نونہال موبائل گیمز میں اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے تھے ، سیکرٹری سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب کی طرف سے ماہنامہ روشنی میگزین کا اجراء کیا گیا۔ اس میگزین کے پلیٹ فارم پر بچوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ اگر ان میں کوئی ادبی ذوق ہے تو وہ اپنی تحریر ، اپنا آرٹ ، اور اپنی قلمی کاوشیں روشنی میگزین میں شائع کروا سکتے ہیں ۔ اس سے بچوں میں پوشیدہ تخلیقی صلاحتیں اجاگر ہونے لگی ہیں۔ وہ بچے جو آپ بیتی کے مفہوم سے بھی نا آشنا تھے،اب نہ صرف اپنی داستان لکھنے لگے ہیں بلکہ اگر کسی کی تحریر شائع ہو جائے تو فخر سے اپنے والدین اور ہم جماعتوں کو دکھاتے ہیں کہ جو ہم نے لکھا وہ شائع ہو گیا۔ بچوں کا یہ جذبہ انہیں پہلے سے زیادہ تحریک دیتا ہے اور بچے بے تابی سے ہر مہینے میگزین کا انتظار کرتے ہیں۔ میرے نزدیک روشنی میگزین کی صورت میں بچوں کو لکھنے کا پلیٹ فارم مہیا کرنا سیکرٹری سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب ڈاکٹر احتشام انور کا ایک احسن قدم ہے ۔ کوئی تو ہے جس نے علم و ادب سے دور ہوتے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اس روشنی سے منور کرنے کا سوچا ۔