عبدالستار (ڈیرہ غازی خان)
ایک درویش کی حق گوئی سے ناراض ہوکر بادشاہ نے متکبرانہ انداز میں اس کو جیل میں ڈال دیا۔ وزراء میں سے کسی نے درویش کو کہا کہ بادشاہ کو بھرے دربار میں اس طرح نصیحت کرنا مناسب نہ تھا۔ درویش نے کہا کہ میں حق بات کہنا عبادت سمجھتا ہوں اور مجھے قید خانہ کی کوئی پرواہ نہیں کہ یہ چند لمحوں کی بات ہے۔ بادشاہ کو درویش کی وزیر سے گفتگو کا پتہ چلا تو اس نے پیغام بھجوایا کہ چند لمحے نہیں بلکہ ساری زندگی جیل میں رہنا پڑے گا۔ درویش نے واپسی جواب دیا کیا تو جانتا نہیں کہ دنیا ہے ہی ایک گھڑی۔ درویش کے لیے خوشی اور غم برابر ہے، تو لشکر اور خزانوں میں خوش ہے جب کہ میں رنج اور محرومی میں بھی اپنے رب سے راضی ہوں۔جب ہم دونوں کو موت آئے گی تو برابر ہو جائیں گے، کوئی نہیں پہچان سکے گا کہ درویش کون ہے اور بادشاہ کون؟ بادشاہ کو ان ناصحانہ باتوں سے مزید غصہ آیا اور درویش کی زبان کھینچ لینے کا حکم دیا۔ حق گو درویش نے کہا کہ مجھے اس سے بھی فرق نہیں پڑے گا کہ میرا اللہ بغیر میری زبان کے بھی یہ جانتا ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں، میں ظلم برداشت کروں گا جو میری آخرت بہتر کر دے گا بلکہ مجھے تو خوشی ہو گی کہ تجھے بھی مرتے وقت ایمان نصیب ہو جائے۔ پیارے بچو! بادشاہوں کی ناراضی کے سبب حق گوئی کا فریضہ چھوڑ دینا اہل حق کا شیوہ نہیں۔