ماریہ حنیف (وہاڑی)

صبا نہایت ہی امیر باپ کی بیٹی تھی۔ ابھی وہ چھوٹی ہی تھی کہ اس کے ابو کی فیکٹری میں آگ لگ گئی۔ اور اشرف کا تمام کاروبار تباہ و برباد ہو گیا۔ اب اشرف اپنے گھر کا گزارا مشکل ہی سے کر پاتا تھا۔ لیکن صباکی عادتیں وہی تھیں کہ روز انہ اپنے ابو سے فرمائش کرتی تھی۔ اب صبا کے ابو بڑی مشکل سے صباکی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کر پاتے تھے۔ دوستوں کے پاس گڑیا دیکھ کر صبا نے بھی اپنے ابو سے فرمائش کی کہ ابو مجھےبھی ایک ایسی گڑیا لا دیں۔ جس گڑیا کی فرمائش صبانے کی  تھی، وہ گڑیا اشرف کے لیے  خریدنا نہایت مشکل کام تھا۔ کیونکہ اس کی آمدنی تو بس اب اتنی ہی تھی کہ گھر کا گزر بسر  بھی مشکل سے ہو پاتا تھا۔ لیکن وہ صباکا دل بھی توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ صباکی سہیلیاں  اسے اپنی گڑیا کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی تھیں۔ اشرف  صباکا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ لہٰذا وہ روز صباسے کہہ کر جاتا تھا کہ میں تمہارے لیے گڑیا ضرور لاؤں گا۔ لیکن جب گھر آتے ہی صبا اپنے ابو سے گڑیا کا سوال کرتی تو وہ بھول جانے کا بہانہ کر دیتا۔ لیکن صبا بھی روز امید کرتی تھی کہ آج اس کے ابو ضرور گڑیا لائیں گے۔ ایک دن صبا کے سکول میں بہت بڑی گڑیا لائی گئی۔ سکول میں کہا گیا کہ یہ گڑیا اسے دی جائے گی جس کے پاس گڑیا کی چیزیں جمع کی ہوں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ایک شرط یہ بھی رکھ دی گئی کہ جس کے پاس پہلے کوئی گڑیا نہ ہو گی۔ صبا نے گڑیا کی بہت ساری چیزیں جمع کر رکھی تھیں اور اس کے پاس گڑیا بھی نہ تھی۔ لہٰذا صبا کو یہ گڑیا مل گئی۔

شیئر کریں
18
0