ذکیہ غفار (خانیوال)
علامہ اقبال کی شاعری میں مقصد کو اولیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوام مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق،عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے یہاں دل کے ساتھ دماغ کی کارفرمائی نمایاں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا کلام محض فلسفیانہ اور حکیمانہ ہے اور اس میں شعریت کی کوئی کمی ہے۔ ان کے مفکرانہ کلام میں سوز اور جذبہ کا گہرا گداز شامل ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں اردو کے کلاسیکی سرمایہ سے استفادہ کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اردو شاعری کو نئی نئی اصطلاحات، تشبیہات اور رموز و علائم کا اک خوبصورت ذخیرہ بھی عطا کیا۔ انہوں نے زبان کو حسب ضرورت برتا، کہیں روایت کا اتباع کیا تو کہیں اس سے انحراف۔ بقول رشید احمد صدیقی اقبال کی نظموں کا شباب ان کی غزلوں کی شراب میں ڈوبا ہوا ہے۔ اقبال نے اردو شاعری سے حزن و قنوطیت کے عناصر ختم کر کے اس میں رجائیت، جوش اور نشاط آفرینی پیدا کی۔ اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں اسی لیے ان کے فلسفہ میں کشش اور جاذبیت ہے۔ اقبال نے اپنے عہد اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی کے ساتھ ادا کر سکے۔ ان کے بعد شروع ہونے والی ادبی تحریکیں کسی نہ کسی عنوان سے ان کے سحر میں گرفتار رہی ہیں۔ اردو کے تین عظیم شاعروں میں میر کی شاعری اپنے قاری کو ان کا معتقد بناتی ہے، غالب کی شاعری مرعوب و مسحور کرتی ہے اور اقبال کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔