خالد حسین اعجاز (بہاول نگر)

پاکستان کا قیام چند دنوں یا برسوں کی تحریک کا مرہون منت نہیں ہے بلکہ اپنی شناخت کا یہ پر خار سفر صدیوں پر محیط ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ اس مملکت کا وجود دو قومی نظریہ کی محکم بنیادوں پر استوار ہے۔تحریک پاکستان کے دوران مخالفین نے مسئلہ قومیت کو وجہ نزاع بنانے رکھا۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حصول پاکستان کی جنگ میں سب سے بڑا محاذ قومیت کا مسئلہ تھا۔ برصغیر میں پاکستان کا ظہور دو قومی نظریہ کی  فتح ہے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی جب ابلیس  نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرتے ہوئے نہ صرف حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کی قسم بھی کھائی تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بنی نوع انسان کو دو جماعتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک مسلم  دوسری جماعت عالم کفر ہے۔ مسلم قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں دو قومی نظریہ کی بنیاد اسی دن رکھ دی  گئی تھی جب ہندوستان کا پہلا غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ اس طرح ایک مسلمان فرد نے برصغیر میں ایک نئے سیاسی، معاشرتی، اخلاقی اور تمدنی شعور کو بیدار کیا۔ مسلمانان ہند  نے اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنے جدا گانہ قومی تشخص کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ کبھی حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ مسلم اقلیت کے لیے ڈھال بنے تو کبھی ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ، تیتو میر اور سید احمد شہید وغیرہ نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے مسلم قومیت کے تصور کو نکھارا۔  سب سے پہلے سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ کی اساس برصغیر میں رکھی۔ اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا۔ اس نظریے کے مطابق ہندو الگ قوم ہیں اور مسلمان الگ قوم۔ علامہ اقبال نے برصغیر میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور مثبت اور نظریاتی بنیادوں پر پیش کیا ۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگایا۔  دسمبر 1930 میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے علامہ اقبال نے  کہا کہ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جس کی زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد،اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست بنا دیا جائے۔مارچ 1940 ء میں لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا۔ حصول آزادی کے بعد  ہم سب پر فرض ہے کہ نہ صرف دوقومی نظریے کی حفاظت کریں بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس پر مکمل عمل کریں اور اپنی نوجوان نسل کو دو قومی نظریہ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

شیئر کریں