خاموشی میں  حکمت ہے

علیشا مریم (خانیوال)

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ نے تین بے گناہ افراد کو موت کی سزاسنائی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا۔ رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا ۔ موت کی سزا پانے والوں میں ایک عالم، ایک وکیل اور ایک فلسفی تھا۔ سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے ،وہی موت دینے اور زندگی بخشنے والا ہے، اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا گیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا۔اس کے بعد وکیل کی باری تھی ،اس کو بھی موت کے تختے پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ہمیشہ حق اور سچ کی وکالت کی  ہے،جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہاں بھی میرے ساتھ  انصاف ہوگا۔ اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا ،پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا، پھانسی دینے والے قدرت کے اس انصاف پرحیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی۔ اس کے بعد فلسفی کی باری تھی،  اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا۔ فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی۔ انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا  سر کچل کر رہ گیا۔  پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔

شیئر کریں
11
0