عمر رشید (بہاول پور)
پیارے بچو! شطرنج کا آغاز آج سے 1500 سال پہلے ہندوستان سے ہوا ، چھٹی صدی عیسوی میں یہ کھیل ہندوستان سے شام اور اسپین پہنچا. اس کے بعد مسلمانوں نے اس کھیل کو ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ شطرنج کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے پندرھویں صدی عیسوی میں یورپ نے اس کی چالوں میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ موجودہ شطرنج انہی اصولوں پر کھیلی جاتی ہے ۔ انیسویں صدی عیسوی میں شطرنج کا پہلا عالمی مقابلہ منعقد ہوا اور ول ہیلم1886 میں اس کھیل کے پہلے چیمپئن قرار پائے۔ بیسویں صدی عیسوی میں شطرنج فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا جو اس کھیل کے قوانین اور مقابلوں کے انعقاد کی ذمہ دار ہے۔
یہ تو شطرنج سے متعلق وہ معلومات ہیں جو سبھی جانتے ہیں مگر آج تک کسی کو شطرنج کے کھیل کو ایجاد کرنے والے کا نام نہیں مل سکا ۔ وہ شخص اس قدر ذہین تھا کہ آپ بھی اس کی ذہانت کی داد دیے بنا نہیں رہ پائیں گے۔ قصہ یوں ہے کہ جب شطرنج کا کھیل ابتدائی دور میں چند لوگوں تک محدود تھا تو اس وقت کے بادشاہ کو اس کھیل کے بارے میں بتایا گیا،جس پر بادشاہ نے کھیل بنانے والے کو اپنے محل میں دعوت دی اور کہا کہ اس کھیل کو میرے سامنے کھیلا جائے۔ جب شطرنج کی بازی ختم ہوئی تو بادشاہ کو یہ کھیل بہت پسند آیا ، اس نے خوش ہو کر بنانے والے سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ہم تمہیں تمہاری مرضی کی دولت سے نوازیں گے۔ اس شخص نے بادشاہ کو جواب دیا کہ مجھے چاول کے دانے دیے جائیں اور وہ بھی اس کھیل کے ڈبوں کے مطابق پہلے ڈبے میں چاول کے دو دانے رکھے جائیں اور پھر ہر اگلے ڈبے میں اس کی تعداد دو گنا کر دی جائے۔ یہ سن کر بادشاہ اور درباری حیران رہ گئے۔ بادشاہ نے کہا کہ ہم تمہیں انعام و اکرام سے نواز رہے ہیں اور تم کچھ چاول مانگ رہے ہو، ایک دفعہ پھر سوچ لو۔ اس شخص نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت ! مجھے تو بس یہ ہی چاہیے اگر آپ دینا چاہیں تو ٹھیک ورنہ رہنے دیجیے۔
بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ اس کی شرط کے مطابق اسے چاول کے دانے ادا کیے جائیں۔ اگلے روز وزیر اعظم بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا تو وہ پریشان تھا۔ بادشاہ نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ شخص بہت شاطر ہے ،ہم جسے معمولی انعام سمجھ رہے تھے وہ اس قدر زیادہ ہے کہ ہماری ساری ریاست بیچ کر بھی پورا نہیں کیا جا سکتا۔ بادشاہ کو حیرت ہوئی اس نے تفصیل پوچھی کی تو وزیراعظم نے بتایا کہ بادشاہ سلامت! پہلے ڈبے میں دو دانے چاول کے رکھنے کے بعد ہر اگلے ڈبے میں اس کے دو گنا رکھنے تھے ،ہم اس کو معمولی انعام سمجھ رہے تھے مگر تیس ڈبوں کے بعد یہ تعداد اس قدر بڑھتی جاتی ہے کہ اس مقدار کو پورا کرنا ہماری ریاست کے اختیار میں نہیں۔ یہ سن کر بادشاہ بھی اس شاطر کی ذہانت کا قائل ہو گیا۔