مسعود الدین احمد (مظفرگڑھ)

تعلیمی سال شروع ہوا تو عاصم اپنےا بو کے ساتھ درسی کتابیں خریدنے بازار گیامگر وہاں بھی کچھ کتابیں دستیاب نہیں تھیں، اس لیے ابو نے وہ کتابیں اپنے دوست سے کہہ کر دوسرے شہر سے منگوالیں تاکہ عاصم کا وقت ضائع نہ ہولیکن عاصم میں یہ خراب عادت تھی کہ وہ اپنے والدین کی بات بہت کم مانتا تھا اور مختلف  حیلوں بہانوں سے سکول سے چھٹی کر لیتا تھا۔ اگر ہوم ورک مکمل نہ ہوتا تو پیٹ درد یا کوئی اور بہانہ بنالیتا۔ والدین کی نصیحت ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دینااس کی پکی عادت تھی۔ایک روز عاصم نے مطالعہ پاکستان کے ٹیسٹ کی تیاری نہیں کی تھی، اس لیے وہ سکول نہیں گیا۔ ابو کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میری آنکھ ذرا دیر سےلگی ہے، اس لیے میں سکول نہیں جاؤں گا۔ ابو نے اسے پیار سے سمجھایا کہ بیٹا! یاد رکھو کہ سستی اورکاہلی ہماری سب سے بڑی دشمن ہے، یہ ہمیں کامیابی سے دور کر دیتی ہے، سکول شروع ہونے میں کچھ وقت باقی ہے، تم جلدی سے تیار ہو جاؤ، میں خود تمہیں اسکول چھوڑنے چلوں گا اور پرنسپل صاحب سے معذرت بھی کر لوں گا۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی عاصم کو سکول جانا  پڑا لیکن جب وہ سکول پہنچا تو گیٹ بند ہو چکا تھا اور کھڑکیوں سے بچوں کے پڑھنے کی آواز آرہی تھیں۔ عاصم کے ابو اسے کھڑا کر کے پرنسپل صاحب کے کمرے میں چلے گئے تو عاصم کی نظر ایک چھوٹے سے بچے پر پڑی جو انتہائی بوسیدہ کپڑے اور پرانے جوتےپہنے اپنے سکول کی دیوار سے چپکا کھڑا تھا اور بچوں کے ساتھ مسلسل پڑھ رہا تھا۔ تعلیم حاصل کرنے کی لگن اور بے تابی اس کے انداز سے جھلک رہی تھی۔ یہ منظر نہایت عجیب تھا، ایک یہ بچہ تھا جو کوئی سہولت نہ ہونے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا اور ایک عاصم تھا کہ والدین اور اساتذہ کی محنت اور ہر سہولت کے باوجود غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ عاصم کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تیرنے لگے، اسے پہلی بار احساس ہوا کہ میں کتناخوش قسمت ہوں کہ ایک اچھے سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور میرے والدین میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں ،یہاں تک کہ میری ہر بے ادبی کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں جب کہ یہ بچہ تمام چیزوں سے محروم رہنے کے باوجود اپنے اند رعلم حاصل کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ عاصم نے دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اب میں کبھی  بھی سستی اور کا ہلی نہیں کروں گا اور محنت سے تعلیم حامل کر کے اپنے والدین کے خواب پورے کروں گا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ ادب و آداب سے پیش آ کر ان سے ڈھیروں دعا ئیں لوں گا اور بڑا انسان بنوں گا۔ اب وہ تیزی سے اپنے کلاس روم کی طرف جارہا تھا تا کہ مزید وقت ضائع نہ ہو، ممکن ہے آج کے ٹیسٹ میں وہ ناکام ہوجائے لیکن آنے والے امتحان میں کامیابی کی امیداس کے دل میں روشن ہو چکی تھی۔پیارے بچو! آپ بھی ان نعمتوں کا شکر اداکیجیے جو تعلیم کی صورت آپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔

شیئر کریں
38
0