ماریہ اقبال (وہاڑی)
پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں خرگوش رہتا تھا ۔ اس کی نیک دلی کے چرچے دوسرے جنگلوں میں بھی تھے۔اس نے ہمدردی کرکے دشمنوں کوبھی اپنادوست بنا رکھا تھا۔ ایک دفعہ وہ اپنے مخصوص انداز میں ٹہلتا ہوا جا رہا تھاکہ اس نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی ۔ وہ رک گیا ۔ وہ کوئی چھوٹا انسانی بچہ معلوم ہوتا تھا۔ وہ دوڑتا ہوا آواز کی جانب بڑھا، جب وہ آواز کے پاس پہنچا تو ایک بہت عجیب منظر اس کا انتظار کررہا تھا۔ سات سے آٹھ سال کا بچہ درخت پر چڑھا ہواتھا اور زورزور سے چلا رہا تھا۔ نیچے ایک خطرناک چیتا ٹہل رہا تھا ۔خرگوش اس معصوم بچے کو پریشانی میں دیکھ کر دماغ پر زور دینے لگا اور کوئی ترکیب سوچنے لگا جس سے وہ بچے کو بچا سکے۔ بچہ شاید جنگل میں بھٹک گیا تھا ۔ خرگوش کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، وہ درخت کے پیچھے سے نکلا تو چیتے سے کہنے لگا کیوں جنگلی بلّے تم یہاں ہو ،میں نے سنا ہے کہ جنگل میں نئے انتظامات ہو رہے ہیں ،سارے شیر چیتے چھوٹے بڑے جانور تو وہاں جمع ہیں، لگتا ہے تمہیں جنگل کا بادشاہ بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے، تمہیں شکار سے فرصت ملے تو،لومڑی کو بتاتے ہوئے میں نے سوچا تمہیں بھی بتا دوں ۔چیتے نے حیرت سے آنکھیں پھیرتے ہوئے درخت پر بیٹھے اس بچے پر ڈالی اور جلد سے ہی نظروں سے غائب ہوگیا ۔وہ معصوم بچہ درخت سے نیچے اترا اور خرگوش کا شکریہ ادا کرنے لگااور وہ بچہ بولا آپ توبہت اچھے جانور ہیں، ابو تو کہتے تھے کہ جنگل میں جانور بہت برے اور خطرناک ہوتے ہیں۔ اگلے دن وہ خرگوش اپنے بچوں کے ساتھ ندی کے کنارے کھیل رہا تھا کہ اچانک وہاں وہ چیتا آگیا ، خرگوش کو دیکھ کر کہنے لگا کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے، اب میں تمہیں اور تمہارے بچوں کو نہیں چھوڑوں گا ۔وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ چیتے پر گولی کی آواز سنائی دی ،گولی ہوا میں اڑتی ہوئی چیتے کے پیٹ میں جا لگی، اس نے دیکھا کہ ایک آدمی، جس کے ہاتھ میں بندوق تھی اور اس کے ساتھ وہی چھوٹا بچہ بھی تھا ۔وہ دونوں خرگوش کے قریب آئے ۔وہ بچہ خرگوش کو دیکھ کرکہنے لگاارے بھائی کیسے ہیں آپ؟ ہم یہاں شکار کرنےکے لیے آئے تھے اور اچانک ہماری نظر چیتے پر پڑی، میں نے ابو سے کہا کہ آپ نے میری جان بچائی تھی تو میرے ابو نے کہا ہمیں بھی اس کی جان بچانی چاہیئے۔ خرگوش نے خوشی خوشی ان دونوں کا شکریہ ادا کیا اور بچوں کو لے کر جنگل کی طرف چلا گیا۔