خضر ولی چشتی (چشتیاں)

پیارے بچو! میرا نام خضر ولی چشتی ہے۔ مجھے شجر دوست کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج میں آپ کو اپنی اس آپ بیتی کے ذریعے  بتانا چاہتا  ہوں کہ مجھے شجر دوست کیوں کہا جاتا  ہے۔ آج سے 31برس قبل میں نے چشتی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میں  پیدائشی طور پر جسمانی معذوری کا شکار تھا۔ لیکن اس معذوری کے باوجود میرے والدین نے اپنی محبت میں کوئی فرق روا نہ رکھا۔ میری معذوری کو میری طاقت بنانے کے پیچھے میری والدہ صاحبہ اور  مرحوم والد کی شفقت اور بے لوث دعائیں تھیں۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول فیروز پور چشتیاں سے حاصل کی۔ میں نے اپنی معذوری کو بھول کر ہمت اور حوصلہ سے پڑھنے اور آگے بڑھنے کی ٹھان لی۔ 2015ء میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم ایس سی جغرافیہ کی ڈگری حاصل کی۔ میرا بچپن قدرتی ماحول میں گزرا۔ ہر صبح خوب صورت درخت اوران پر بیٹھے بھانت بھانت کے  پرندوں کو دیکھنا مجھے بہت پسند تھا، مجھے پھول بہت اچھے لگتے، میں اکثر پھولوں میں گھومتا اور تتلیاں پکڑنے کی کوشش کرتا۔ شاید یہی ماحول میرے شجر دوست بننے میں معاون ثابت ہوا۔

 اپنے زمانہ طالب علمی میں سکول کے استاد نے ہمیں  شجر کاری کی افادیت سے آگاہ کیا تھا۔ جب میں نے اپنے اردگرد درختوں کی بے دریغ کٹائی ہوتے دیکھی اور اس کے نقصانات بارے پڑھا تو بہت افسوس ہوا کہ ہم صرف درخت ہی نہیں کاٹ رہے بلکہ مخلوقات سے ان کا گھر بھی چھین رہے  ہیں۔ اخبارات و جرائد اور سماجی ذرائع ابلاغ پر دوسرے ممالک کی گرین بیوٹی دیکھی تو دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی کہ  میں بھی اپنے ملک کو میں سر سبز و شاداب بناؤں گااور اس سلسلے میں اپنی معذوری کو حائل نہیں ہونے دوں گا۔ میں نے درخت لگانے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔

کسی بھی ملک کی ترقی ،خوش حالی اور عمدہ آب و ہوا کے لیے اس کے کل رقبے کے پچیس فیصد رقبے پر درختوں کا ہونا ضروری ہے جب کہ ہمارے ملک پاکستان کے محض چار فیصد سے بھی کم حصے پر درخت لگے ہوئے ہیں جو کہ ایک قومی المیہ ہے۔ اس صورت حال کے باعث موحولیاتی آلودگی اور  دیگرخطرناک قسم کی بیماریاں جنم لے رہی ہے۔ میرا مقصد صرف  درخت لگانا ہی نہیں تھا بلکہ شجر کاری کی افادیت کے حوالے سے لوگوں میں شعور وضع کرنا اور انہیں درختوں کے فائدوں سے روشناس کرانا بھی تھا۔  لہذا میں نے درج ذیل مختلف قسم کے طریقوں پر کام شرو ع کر دیا۔

سرکاری اداروں میں خوب پلانٹیشن کی ، گورنمنٹ ہائی اسکول فیروز  پور اور بہت سےسرکاری اسکول مکمل طور پر گرین بنا دیے۔ 

کسانوں کو شعور دیا کہ ہر کسان اپنی اراضی کے کم از کم ہر ایکڑ میں ایک درخت ضرور لگائے اور اس میں  مجھے کافی حد تک کامیابی ہوئی۔

میں نے لوکل درختوں کو پروموٹ کیا کیوں کہ مقامی ماحول میں ان کی گروتھ اچھی ہے۔

فری نرسری کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ لوگوں کو مفت پودے دستیاب ہوں۔ 

طلبہ کے ہاتھ سے درخت لگوائے اور ان کا خیال کروایا تاکہ ان کے دلوں میں درختوں کی قدر پیدا ہو۔

پھل دار درخت لگائے کیوں کہ یہ مستقبل کی اہم ضرورت ہیں۔ 

سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر شجر کاری کی افادیت بارے لکھا اور مختلف پروگرام میں بطور مہمان شمولیت کی۔

ان سب کے علاوہ میری دیہات میں یہ کوشش رہی کہ ہر گھر سر سبز ہو ۔اس مقصد کے لیے ہر گھر ایک شجر کے نعرے کوپروموٹ کیا۔ الحمدللہ اب تک میں نوے ہزار سے زائد درخت لگا چکا ہوں۔ میں نے اپنی  معذوری کو طاقت بنا کر اپنے ملک کو سر سبز و شاداب بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے  کہ آپ جس سکول میں  بھی پڑھتے ہیں ، وہاں اپنے نام کا ایک درخت  ضرورلگائیں اور میری اس خوب صورت سر سبز تحریک کا حصہ بن جائیں۔ آئیےہم  مل کر اپنے وطن پاکستان کو سر سبز و شاداب بنائیں اور اپنے ماحول کو خوب صورت بنانے میں اپنا نمایاں کردار ادا کریں۔ آج بھی جب  میں صبح سویرے سیر کے لیے نکلتا ہوں  تو میرے ہاتھوں سے لگائے ہوئے درختوں پر مختلف پرندوں کی چہچہانے کی خوب صورت آوازیں میرے کانوں میں رس گھول کر طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتی ہیں۔

شیئر کریں
851
5