بشریٰ حسن (لیہ)
صاحب! بوٹ پالش کروا لو۔ بازار میں ایک طرف سے آواز آنے پر میں اچانک مڑا۔ کیا۔۔۔ کچھ کہا تم نے ؟ میں نے فٹ پاتھ پہ بیٹھے موچی سے پوچھا۔صاحب! بوٹ پالش کروا لو ، صبح سے ایک گاہک بھی نہیں آیا۔ شام ہو رہی تھی ، میں دفتر سے لوٹا تو بیٹا رو رہا تھا کہ نئی سائیکل لے دیں۔ اسے روتا دیکھ کر میں نے کپڑے حتیٰ کہ جوتے بھی نہ بدلے اور اسے لے کر بازار آ گیا۔ صاحب! میری بیٹی بیمار ہے اس کی دوائی لینی ہے۔ بیٹی کی بیماری کا سن کر میرا دل بھی پسیج گیا اور میں نے اسے اپنے جوتے پالش کرنے کے لیے دے دیے۔ لیجیے صاحب! ہو گئے جوتے پالش۔ میں نے جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر اسے دیا۔ اس نے مجھے 30روپے واپس کیے تو میں غصے سے بولا کہ بیس روپے پالش کے بہت زیادہ ہیں۔ صاحب! مہنگائی بہت ہے۔ وہ التجائی آواز میں بولا۔ میں نے تمہاری مجبوری کا خیال کیا اور تم سر پر چڑھنے لگے۔ میں نے غصے سے کہا۔اتنے میں ایک پجارو وہاں آ کر رکی۔ اس میں تین چار نوجوان بیٹھے تھے۔ ایک باہر نکلا اور بوٹ پالش کروانے لگا۔ اس نے کھڑے کھڑے ہی جوتے پالش کروائےاور کہا کہ باباجی! گاڑی میں آئیے میں آپ کو ادھر ہی پیسے دیتا ہوں۔ میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ یہ پیسے دے گا یا نہیں۔ اتنے میں گاڑی کے شیشے سے ایک ہاتھ باہر آیا اور بوڑھے موچی کے ہاتھ ایک دم پیچھے ہو گئے۔ میں حیران ہوا کہ یہ پیسے کیوں نہیں لے رہا ہے۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ نوٹ 5 ہزار کا ہے۔ میرے پاس کھلے نہیں ہیں صاحب۔ بوڑھا بولا۔ تو میں کب کھلے مانگ رہا ہوں چاچا! نوجوان نے مسکراہٹ سے کہا اور گاڑی کا شیشہ اوپر کر لیا۔ گاڑی چلی گئی۔ بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ فرط مسرت سے ان پیسوں کو چومنے لگااور اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔ مجھے لگا کہ میری جیب میں موجود 30روپے مجھے کاٹ رہے ہیں۔ میری کم ظرفی اور بدگمانی پر میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں۔