سائرہ جمیل (لودھراں)………………………………………………….

ایک گاؤں میں ایک سعدیہ نامی خاتون اپنی دو بیٹیوں سارہ اور مریم کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا شوہر وفات پا چکا تھا ۔ اس کی بیٹیاں شہر کے اچھے سکول میں پڑھا کرتی تھیں۔ وہ بہت محنتی اور ذہین تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد مالی حالات خراب ہونے کے باعث وہ خاتون اپنی بچیوں کی پڑھائی کے اخراجات نہ پورے کر سکی اور انہیں گھر پر بٹھا لیا۔ اسے اپنی بیٹیوں کی تعلیم مکمل نہ ہونے کا بہت دکھ تھا۔ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی  جس سے بمشکل ہی گزر بسر ہونے لگی لیکن جب ان تھوڑے پیسوں سے گزارا ممکن نہ تھا تو وہ انہیں پڑھاتی کیسے؟ مالی حالات دن بدن خراب ہوتے گئےتو تنگ آ کر اس نے اپنی دونوں بچیوں کو بھی اپنے ساتھ کام پہ لگانے کی ٹھانی اور قریبی گاؤں میں ان کو بھی چوہدری صاحب کے گھر کام پر لگا دیا۔ چوہدری صاحب اور ان کے گھر والے بہت اچھے لوگ تھے۔ جب سعدیہ بی بی انہیں کام پر چھوڑنے گئی تو چوہدرانی صاحبہ نے بچیوں کو دیکھ کر سعدیہ سے کہا: یہ اتنی چھوٹی بچیاں ہیں اور ان  کے پڑھنے کی عمر میں تم ان سے کام کرواؤگی؟ یہ سن کر سعدیہ رونے لگی اور سارا ماجره انہیں کہہ سنایا۔ چوہدرانی صاحبہ نیک دل خاتون تھی، وہ کہنے لگی اری نیک بخت! پریشان مت ہو، اس مسئلے کا حل موجود ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک بہت اچھا سرکاری سکول ہے، جہاں مفت کتابیں اور مفت تعلیم ہے۔ میرے اپنے بچے  بھی اس سکول میں جاتے ہیں۔ چلو چل کر ان کا داخلہ کرواتے ہیں۔ ان کو پڑھاؤ، ان کا مستقبل سنوارو، کیوں کہ ان ہی بچوں نے ہماری نسلیں سنوارنی ہیں۔ یہ سن کر سعدیہ بہت خوشی ہوئی اور بچیوں کا داخلہ کروانے چلی گئی۔ وہاں سکول کا ماحول اور ہیڈ ٹیچر سے مل کر اسے اطمینان اور بہت خوشی ہوئی۔ وہ خوش تھی کہ اب اس کی بیٹیاں پڑھ لکھ کر اس کا سہارا بنیں گی۔ اس نے چوہدرا نی صاحبہ کا بھی شکریہ ادا کیا اور انہیں بہت سی دعائیں دیں اور ایک دن وہ بھی آیا جب اس کی بیٹیاں پڑھ لکھ کر اُسی سرکاری سکول میں استانیاں لگ گئیں۔ سعدیہ بی بی بہت خوش تھی کہ اب اس کی بچیاں ملک و قوم کی خدمت کر رہی ہیں اور اسے آج بھی چوہدرانی صاحبہ کے الفاظ یاد تھے کہ ان کا مستقبل سنوارو ، کیوں کہ ان ہی بچوں نے ہماری نسلیں سنوارنی ہیں۔

شیئر کریں
1400
23