مسعود ندیم (ڈیرہ غازی خان)
تعلیم ہی وہ واحدذریعہ ہے جو افراد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مثبت اور دیر پا تبدیلی کا سبب بنتا ہے ۔تعلیم سے ہی افراد کی اخلاقی، سما جی، معاشی اور معاشرتی نشوونما ہو تی ہے۔جس کے نتیجے میں صحت مند معا شرہ تشکیل پاتا ہےاور صحت مند معاشرے ہی سے قو م و ملک کی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سب اس وقت ممکن ہو تا ہے جب اس قو م کے بچوں کو پڑھا یا جانے والا نصاب اس قوم کے پس منظر ، سوچ و فکر اور اس قوم کی ضروریات و سا ئل سے ہم آہنگ ہو۔ اگر ہم اپنے ملکی تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنا تعلیمی نظام کھوکھلا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود نہ ہم صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکے اور نہ ہم ایک قوم بن سکے ہیں ۔اور نہ ہی ملک کو ترقی دینےمیں کامیاب ہو سکے۔ اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ناقص نظام تعلیم ہے۔ اس کی چند وجوہا ت درج ذیل ہیں۔
غربت: عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تہا ئی سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غذا انسان کی اہم ضرورت ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا سب سے اہم مسئلہ روٹی ہے۔ تعلیم ان کے فوری مسئلے کا حل نہیں ہے، لہذا یہ طبقہ نہ تو تعلیم کو کوئی اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے بچوں کو تعلیمی نظام کا حصہ بنانے پر رضامند ہوتا ہے۔ اس طبقے کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کچھ کمانے کے قابل ہو جائیں تو وہ روزگار میں ان کا ہاتھ بٹائیں اور روزانہ کچھ کما کر لائیں تاکہ ان کے گھر کا دال دلیہ چلتا رہے۔ جب معاشرے کا چالیس فیصد طبقہ تعلیمی نظام سے باہر ہوگاتو ان کی نہ تو نشوونما بہتر ہوگی اور نہ ہی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے گی۔ لہٰذا ان حالات میں ملک کیسے ترقی کرے گا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ دستور پاکستان کی شق 25 (اے) کو مکمل طور پر نافذ کرکے والدین کو اس امر کا پابند بنایا جائےکہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ نیز حکومت ان کی غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وظائف مقرر کرے۔ اس طرح مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ناکافی بجٹ: یہ ایک المیہ ہے کہ تعلیمی پالیسیوں میں تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر ہمیشہ زور دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر تعلیم کے لیے فنڈز کی فراہمی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تعلیم پر 7 فیصد سے بھی زیادہ خرچ کرتے ہیں جس سے انہوں نے تعلیمی شعبے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ ہمارے ہاں قلیل وسائل کی وجہ سے تعلیمی ادارے خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اگر تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد مختص کیاجائے تو اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال: موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیا ہے اور اس کے انسانی زندگی پر مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے سمعی و بصری مفادات مثلاً کمپیوٹر ، ملٹی میڈیا، انٹر نیٹ نے تعلیم و تعلم کو آسان بنا دیا ہے وہیں دوسری طرف اس کے غلط استعمال نے طلبہ کی کثیر تعداد پرمنفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں اور اس کے غلط استعمال سے معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ ایک مرض لاعلاج کی شکل اختیار کرے ۔ بچوں کو سہولت تو فراہم کی جائے لیکن اس کے منفی استعمال سے اجتناب کے لیے بھی کوئی مؤثر لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے کیوں کہ آج کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اساتذہ اور طلبہ دونوں وٹس ایپ اور فیس بک پر تو مصروف ہیں لیکن نصاب سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ لہٰذا تعلیم و تعلم کے علاوہ باقی تمام ویب سائٹس بلاک کر دی جائیں۔
غیر متعلقہ ذمہ داریاں: محکمہ تعلیم خصوصاً سکول ایجوکیشن کا یہ المیہ رہا ہے کہ اساتذہ کو تدریس کے علاوہ اکثر اوقات غیر متعلقہ ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اپنی ذمہ داریاں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ جیسے مردم شماری ، گندم کی خریداری ، پولیو ویکسی نیشن ،الیکشن ڈیوٹی غرض کہ کوئی ڈیوٹی ہی ایسی ہو گی جس میں اساتذہ کو گھسیٹ کر نہ لایا جاتا ہو۔ پہلے ہی تعلیمی کیلنڈر میں تدریس کے اوقات کم ہیں اور اوپر سے یہ اضافی ڈیوٹیاں تعلیمی نظام کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہےکہ تعلیمی مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہےکہ اساتذہ پر اضافی ڈیوٹیوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے اور استاد کا فوکس صرف تدریس پر رہنے دیا جائے۔
تعلیمی جائزہ: پاکستان میں تعلیمی جائزے کا نظام بھی غیر تسلی بخش رہا ہے۔ جس نے رٹے کو فروغ دیا ہے۔ جائزہ کے اس نظام میں طلبہ کے صرف حافظے کو ہی چیک کیا جاتا ہے جس سے طلبا میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں نہیں پنپ سکتیں۔ پنجاب ایگزامنیشن کمیشن نے اس طرف اچھا قدم اٹھایا تھا لیکن پیپر مارکنگ میں بدانتظامی کی وجہ مطلونہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ اگر ایلیمنٹری بورڈ بنادیا جاتا اور امتحان PEC کی طرز پر ہوتے تو بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے۔
خالی اسامیاں: تعلیمی زوال کا بڑا سبب خالی اسامیاں بھی ہیں۔ اس وقت پنجاب میں اس قدر زیادہ اسامیاں خالی ہونے کی وجہ ایک طرف ان کی بہتر طور پر مانیٹرنگ نہیں ہو پا رہی اور دوسری طرف اساتذہ پر اضافی بوجھ بھی بہت زیادہ ہے۔ اور تقریباً ہر سکول میں اگر کیمسٹری کا معلم ہے تو فزکس کا نہیں ہے، اگر فزکس کا معلم ہے تو میتھ کا نہیں ہے۔ سکول میں اگر پرنسپل اور اساتذہ دونوں طلبہ کی تعداد کے مطابق ہوں تو تعلیمی مسائل سے چھٹکارا بھی ممکن ہوگا اور معیاری تعلیم بھی مہیا کی جاسکے گی ۔ ہمارے ضلع ڈیرہ غازی خان میں 162 ہائی سکولز میں 60 کے لگ بھگ ایسے ہیں جس میں پرنسپل ہی تعینات نہیں۔ جب یہ حالات ہوں گے تو کیسے بہتر نتائج وصول کیے جاسکتے ہیں۔