آسیہ خان (لودھراں)
کہتے ہیں کہ کسی دیہاتی نے بہت سی بھیڑیں پال رکھی تھیں۔ وہ ان کی بہت حفاظت کرتا۔ ان کو سردی، گرمی سے بچاتا، لیکن وہ یہ سب بے مقصد نہیں کرتا تھا۔ گرمیوں میں وہ اُن سب کی وقفے وقفے سے اُون اُتارا کرتا تھا۔ جسے بیچ کر وہ کافی منافع کماتا اور اگر اس کے گھر زیادہ مہمان آتے تو وہ ان کی خاطر مدارت بھیڑ کے گوشت سے کرتا تھا۔ لیکن اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ کبھی کسی بھیڑ کی اُون اتارتا یا اس کو ذبح کرتا تو اپنی حویلی سے دور جا کر کرتا، تاکہ دوسری بھیڑوں کو اس کا علم نہ ہو۔ اگرچہ وہ یہ سب باقی بھیڑوں کے سامنے نہ کرتا پر جیسے ہی وہ کسی بھیڑ کو کان سے پکڑ کر لے کر جاتا باقی بھیڑیں دعائیں مانگتیں کہ یا اللہ! ہماری ساتھی زندہ واپس آ جائے۔ اور جب وہ بھیڑ اُون اتروا کر خوش قسمتی سے زندہ واپس آ جاتی تو سب بہت خوش ہوتیں اور جب کبھی دیر تک واپس نہ آتی تو باقی سمجھ جاتیں کہ وہ ذبح ہو گئی۔ پھر کچھ دیر کے لیے سب غمگین ہو جاتیں اور پھر آہستہ آہستہ بھوک، پیاس مٹانے کے چکر میں سب بھول جاتیں۔ حالانکہ وہ سب جانتی تھیں کہ یہ سلسلہ کبھی رُکنے والا نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ پل بھر کے لیے سارے غم بھول کر چارہ کھانے میں مصروف ہو جاتیں۔ اگر غور کریں تو ہم انسانوں کی زندگی ان بھیڑوں سے مختلف نہیں ہے۔ اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ موت بر حق ہے۔ پھر بھی اگر کبھی ہم میں سے کوئی کسی بڑے حادثے یا بیماری سے بچ جاتا ہے تو ہم سب خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو جان بچ گئی۔ اور اگر کوئی چل بسے تو گھڑی بھر کے لیے غمگین ہوتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ لیکن پھر بھیڑوں کی طرح اپنی زندگی کی مصروفیات میں سب کچھ بھلا کر دنیاداری میں مشغول ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو موت کی گھڑی کو یاد رکھنے اور اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )