عظمیٰ بی بی (خانیوال)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ کے نو انڈوں میں سے آٹھ انڈوں سے پیارے سے ننھے منے بچے نکلے، لیکن ایک انڈا کئی دن تک  یونہی پڑا رہا، ایک صبح جب وہ اپنے بچوں کو لے جانے کی تیاری کر رہی تھی تو اچانک تڑاخ کی آواز سے انڈا ٹوٹا اور ایک عجیب و غریب سیاہ بطخا برآمد ہوا۔ وہ اپنی جسامت میں باقی بطخوں سے بڑا اور رنگت میں سیاہ تھا۔ بطخ جب تالاب پر جاتی تو سب بطخیں بدصورت بطخے کا مذاق اڑاتیں۔ ایک دن تنگ آ کر بطخ نے اس بدصورت بطخے کو نکال دیا۔ بدصورت بطخا بہت غمگین ہوا۔ وہ سر جھکائے تالاب سے نکلا اور جنگل کی طرف چل پڑا۔ سارا دن سفر میں گزر گیا۔ رات سر پر آئی تو وہ پریشان ہو گیا۔ اچانک اسے دور سے روشنی سی دکھائی دی۔وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس کی کھڑکیوں سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ بطخا بہت تھک چکا تھا وہ اس گھر کی دیوار کے ساتھ لیٹ گیا اور جلد ہی اس کی انکھ لگ گئی. صبح سویرے جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو گھر کے اندر موجود  پایا۔ ہوا یوں کہ صبح ہونے پر گھر کی مالکن بوڑھی عورت لکڑیاں چننے  کے لیے جب باہر نکلی تو اس کی نگاہ بدصورت بطخے پر پڑی۔ بوڑھیا کو بدصورت بطخے کی حالت دیکھ کر بڑا ترس آیا۔ اس  نے اسے  اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ بدصورت بطخے کا بہت خیال رکھتی۔ بوڑھی عورت کے گھر میں ایک مرغی، ایک بلی اور ایک گلہری بھی رہتے تھے۔ مرغی بدصورت بطخے سے حسد کرنے لگی۔ بدصورت بطخا مرغی کے بُرے سلوک کو خاموشی سے برداشت کرتا رہا۔ مرغی نے ایک روز بلی کو مشورہ دیا کہ وہ بدصورت بطخے کو کھا جائے۔ بلی  نے پہلے تو انکار کیا مگر پھر لالچ میں آ گئی۔ گلہری نے مرغی اور بلی کی باتیں سن لیں۔ اس نے جا کر بدصورت بطخے کو سب کچھ بتا دیا۔ بدصورت بطخے کو بہت دکھ ہوا، وہ صبح سویرے گھر سے نکل کر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ بالآخروہ ایک باغ میں پہنچا جہاں ایک تالاب بھی تھا۔ بطخے نے یہاں بسیرا کر لیا۔ جب موسم بہار شروع ہوا تو باغ میں رنگ برنگے پھول کھل گئے۔ ایسے میں ایک دن بطخے نے تالاب میں اپنا عکس دیکھا تو وہ دنگ رہ گیا۔ اس کے نئے سفید پر نکل آئے تھے جب کہ گردن نہایت خوب صورت انداز میں خم دار ہو گئی تھی۔ وہ بطخا نہیں  بلکہ ایک خوب صورت راج ہنس تھا۔ اب وہ اڑ سکتا تھا۔لوگ دور دور سے اس کی خوب صورتی دیکھنے آتے تھے۔

شیئر کریں
897
10